964

الخدمت فاونڈیشن۔ ایک بہترین خیراتی ادارہ

عالمزیب خان

سنہ 2005 کا خوفناک زلزلہ کس کو یاد نہیں جس میں کوئی 70 ہزار سے اوپر لوگ شہید ہوئے۔ زلزلے کے فوراَ بعد ملکی اور غیر ملکی سطح پر امدادی کاموں کا سلسلہ شروع ہوا جہاں پاکیستانی قوم نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ہر عام و خاص نے اپنی اپنی وساطت کے مطابق بغیر کسی توقف کے جہاں بھی موقعہ ملا امدادی سرگرمیوں میں حصہ ڈالا۔ مجھے اُن دنوں اسلام آباد میں نئی نئی سرکاری نوکری ملی تھی اور میرا بھی دل کررہاتھا کہ میں بھی اس کارِ خیر میں سب کے ساتھ شامل ہو جاوں۔ لیکن میرے ساتھ ایک مسلہ تھا (اور شاید اب بھی ہے) کہ جب تک مجھے تسلی نہ ہو کہ یہ پیسے صحییح جگہ خرچ ہو رہے ہیں چاہے 10 روپے کیوں نہ ہو تو میں حاتم طائی بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہی سوچ لیکر جب پورے دو دن یہاں وہاں سے معلوم کرنے کی کوشش کی تو کچھ زیادہ افاقہ تو نہیں ہوا، البتہ قرعہ پال آسلام آباد کے میلوڈی مارکیٹ میں لگائے گئے جماعت آسلامی کی ذیلی تنظیم آلخدمت فاونڈیشن کے کیمپ کے نام نکل آیا۔ کیمپ میں بیٹھے 2 رضاکاروں کو بھی اپنی آپ بیتی سنائی کہ بھیا پیسے تو چند ہزار ہی دے رہا ہو لیکن سکون  تب ملیگا جب یہ تھوڑے سے پیسے حقدار تک پہنچ جائے۔ آللہ ان کا بھلا کریں جواب میں مسکرا کر بے فکر ہونے کی تسلی دی اور ایک رسید ھاتھ میں تھما کر رخصت کیا۔ کچھ دنوں بعد عجیب اتفاق ہوا، کہ مجھے پہلے کشمیر اور بعد میں بالاکوٹ میں سرکاری طور پر امدادی سرگرمیوں کا حصہ بننا پڑا۔ وہاں میں نے الخدمت فاونڈیشن کے رضاکاروں کو جس جاں پشانی سے کام کرتے دیکھا تو پہلی بار تسلی ہوئی کہ پیسے اپنی جگہ پہنچ گئے ہیں۔ مذکورہ قسم کے مناظر سنہ 2010 کے سیلاب میں بھی دیکھنے کو ملے۔

ابھی جب سے کرونا کی وباء آئی ہے تو 2005 یا 2010 والے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے، شاید اس وجہ سے بھی کہ اس بار یہ وباء پوری دنیا تک پھیل گئی ہے اور بہت سارے لوگ یا ادارے لاک ڈاون کی وجہ سے اس طرح سرگرم نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہیں کہ بڑے بڑے لوگ یا تو منظر سے غائب ہیں اور یا اگر سکرین پر نظر آتے ہیں تو لوگوں کو ھاتھ دھونے کے طریقے سکھانے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ لیکن اطمینان کی بات یہ ہیں کہ نصیحت دینے والوں کو اس بھیڑ مین کچھ انمول ہیرے اب بھی ایسے ہیں جو اس گُھٹن کی فضاء میں تازہ ہوا کے جھونکھے کی مانند میدان میں کھڑے ہیں۔ ان میں ایک نام شاہد افریدی کا ہے جس نے کچھ دنوں میں کراچی سے لیکر چترال تک اپنی مزاج کے مطابق ایسی دھواں دھار اننگز کھیلی کہ سب عش عش کر گئے۔ اُس دن سلیم صافی کے ساتھ پروگرام میں چترالی ٹوپی پہنے اپنی امدادی سرگرمیوں کے ہوالے سے بات کرتے ہوئے جب وہ بار بار ضلع دیر اپر اور چترال کے دورے کا ذکر کر رہا تھا تودل کو تسلی ہوئی کہ پاکستانی عوام نے بجا طور پر اس بندے کو اتنی عزت دی ہے جو اب تنِ تنہا ملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچ رہا ہے۔

  جہاں تک غیر سرکاری تنظیموں اور خیراتی اداروں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بہت سارے اداروں نے ان سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے جیسے سیلانی فاونڈیشن یا سیاسی پارٹیوں میں مسل لیگ نون، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماء آسلام قابل ستائش ہے۔ لیکن جو کام الخدمت فاونڈیشن نے کیا ہے یا کر رہا ہے وہ واقعی بے مثال ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آلخدمت والوں نے اب تک کوئی 30 ہزار خاندانوں میں 60 کروڑ سے اوپر تک کا راشن تقسیم کیا ہے اور جب تک یہ سطریں پڑی جارہی ہو تو یہ تعداد زیادہ ہو چکی ہوگی۔ اور کمپین بھی اتنی منظم کہ کراچی میں اقلیتی برادری ہو یا خیبر پختونخواہ میں پسے ہوے غریب فنکار، ہر جگہ اور ہر طبقہ تک اس انداز میں پہنچنے کی کوشش کی کہ فوٹو سیشن کم کم ہو اور راشن زیادہ اور بر وقت۔

مزکورہ ادارے کا اتنا اچھا انتظام دیکھ کر تھوڑی سی تحقیق کی تو معلوم پڑا کہ الخدمت فاونڈیشن صرف اتنا نہیں کر رہا بلکہ 1990 سے صحت، تعلیم، صاف پانی، افات سے بچاؤ، کفالت یتاما، مواخات پروگرام اور دیگر سماجی خدمات کے ساتھ ایک جامعہ پروگرام کے ساتھ میدان میں اُتری ہے۔ یہ ادارہ 20 ہسپتال، 60 کے قریب ڈائیگناسٹک سنٹرز، 22 زچہ و بچہ سنٹرز، 5 بلڈ بینک اور 284 ایمبولینسوں کے ساتھ صحت کے شعبے میں بر سرپیکار ہے جس سے 2018 کے ایک رپورٹ کے مطابق 72 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 12 ہزار سے زائد رضاکاروں پر مشتمل یہ ادارہ تعلیم کے فروغ میں بھی کسی سے پیچھے نہیں جہاں 550 سے اوپر الفلاح سکالر شپس، 80 کے قریب سکولزاور کئی یوتھ ہاسٹلز کا انتظام ان کے پروفائیل میں شامل ہے جس سے 18 ہزار کے قریب بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس طرح صاف پانی کی سکیمیں ہو، معذور افراد کی خدمت ہو چھوٹی عید کے تحائف ہو یا عیدِ قربان میں گوشت کی تقسیم، اغوش الخدمت کے پراجیکٹ ہو یا غربت کے پسے ہوئے غریب لوگوں کیلئے بلا سود قرضے ہو ایک لمبی لسٹ ہے۔ قابل رشک بات یہ ہے کہ ادارہ یہ کام نہ صرف پاکستان میں کر رہا ہے بلکہ بوقت ضرورت اس ادارے نے روہنگیا کے بے گھر مسلمان آبادی، انڈونیشیا کے سمندری سیلاب کے متاثرین، ترکی میں آئے ہوئے شام کے مہاجرین، بنگلہ دیش اور ملائشیا کے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد بھی کی ہے۔

حوصلہ آفزا بات یہ ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ الخدمت خواتین ونگ بھی اسی جزبے کے ساتھ اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔

الخدمت فاونڈیشن کی کارکردگی کے بارے میں ذکر کرنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ جماعت اسلامی یا کسی اور سیاسی پارٹی سے اختلاف ایک طرف لیکن جہاں بھی کوئی اچھا کام کر رہا ہے اور عوام الناس کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے تو اُن کی تعریف اور حوصلہ افزائی نہ کرنا شاید خیانت ہوگی۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کیطرح جماعت اسلامی میں بہت ساری کمزوریاں ہونگی لیکن اس پارٹی نے الخدمت فاونڈیشن کے نام سے جو عمارت کھڑی کی ہے اس معیار کا خیراتی ادارہ کھڑا کرنے کیلئے دوسرے سیاسی پارٹیوں کو شاید ابھی بہت وقت درکار ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں