478

خواجہ سراء اور ہمارا معاشرہ – صبا ناز

ہمارا ملک پاکستان دنیا میں دوسری بڑی اسلامی مملکت اور اسلام ہر انسان کو برابر کے حقوق دیتا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کے ہمارے معاشرے میں خواجہ سرائوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ان کو دھتکارا جاتا ہے اور برا بھلا کہا جاتا ہے زندگی کے ہر شعبے میں ان سے برا سلوک کیا جاتا ہے ،چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو ،صحت ہو یا پھر ملازمت کا شعبہ ہو ان کو اچھوت سمجھا جاتا ہے حلانکہ مرد ، عورت یا خواجہ سراء ( (Transgenderہونے میں ہمارا کمال نہیں ہوتا بلکے یہ تو قدرت کا نظام ہوتا ہے جس میں انسان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اس سب کے باوجود خواجہ سرائوں کے ساتھ منفی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے اور ان کے ساتھ ظلم اور تکالیف کی ابتدا ء ان کے گھر سے شروع ہوتی ہے جو ان کے اپنے گھر والے اپنے والدین کرتے ہیں۔
والدین شروع سے ہی خواجہ سراء بچے سے ویسا پیار ویسی تعلیم و تربیت نہیں دیتے جو اپنے دوسرے بچوں کو دیتے ہیںاور پھر سماج کے ڈر سے خواجہ سراء بچے کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر ایسا منفی رویہ رکھا جاتا ہے کہ وہ خود گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنے جیسے لوگوں کے پاس پناہ لیتے ہیں اور اپنی الگ دنیا بنا لیتے ہیں اور پھر بے رحم دنیا کی ٹھوکروں کی نظر ہو جاتے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ جب اپنے والدین اپنے بھن بھائی اور اپنے عزیز و عقارب ان کو دھتکار دیتے ہیں تو یہ دنیا یا اس میں بسنے والے لوگ کیا عزت دینگے۔والدین کی بدسلوکی ،تعلیم سے محرومی اور باعزت روزگار یا ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے خواجہ سراء کی اکثریت شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ڈانس کرتی ہوئی تالیاں بجاتی ہوئی یا پھر سخت دھوپ گرمی،سردی اور بارش میں سڑکوں کے کنارے ٹریفک سگنل پر راہ گیروں اور سواروں سے بھیک مانگتے دیکھائی دیتے ہیں اور کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو ان کو طعنے دیتے اور مزاق اڑاتے دیکھائی دیتے ہیں دنیا کا کوئی بھی مذہب کوئی بھی قانون ایسا برا سلوک حیوانوں کے ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ،خواجہ سرا تو انسان ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں خواجہ سرائوںسے انتہائی نامناسب سلوک کیا جاتا ہے خواجہ سراء ہونا کوئی جرم نہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں اور انسان ہیں اگر ان کے خاندان والے خواجہ سراء کو قبول کر لیں ان کو اچھی تربیت ،اچھی تعلیم دیں تو خواجہ سرء معاشرت بدسلوکی کا شکار نہ ہوں اور ہی ایسے مسائل کا شکار ہوں ۔خواجہ سرائوںکے والدین کو چاہئے کہ اسے قدرت کا فیصلہ سمجھ ان کی ویسے ہی پرورش کریں جیسے اپنے دوسرے بچوں کی کرتے ہیں اپنے بچوں کو بے رحم دنیا کے حوالے کرنے کے بجائے قابل انسان بنائیں تاکہ یہ دنیا میں سر اٹھا کر جی سکیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بہت کم پائے جاتے ہیں جو خواجہ سرائوںکے ساتھ مثبت رویہ رکھتے ہیں ،ان کو انسان سمجھتے اور معاشرے کا حصہ سمجھ کر ان کے خقوق ادا کرتے ہیںلیکن اکثریت نہ صرف خواجہ سرائوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں بلکہ ان ان کو اپنے پائوں تلے روندہ ڈالتے ہیں ہم لوگ ان سے بات کرنا ان کے مسائل سمجھنا تو دور ان کے سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیشتر خواجہ سرا ء تعلیم اور ملازمت سے محروم ہیں اگر وہ تعلیم حاصل کرنا چاہئیں بھی تو نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو ہمارے رویے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ تعلیم کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو انتہائی افسوس ناک بات ہے ۔
خواجہ سراء کو اگر تعلیم اور ہنر فراہم کیا جائے تو وہ بھی معاشرے کی ترقی میں اپنا بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے الگ سے تعلیمی نظام تشکیل دے جہاں یہ باعزت طور پر اچھی تعلیم حاصل کر سکیں ہسپتالوں میںان کے لئے الگ وارڈ بنائے جائیں جہاں ان کو تمام طبعی سہولیات فراہم کی جائیں ملازمتوں میں ان کے لئے کوٹا رکھا جائے تاکہ یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اچھی ملازمت اختیار کریں اور معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکیں باوقار طور پر زندگی گزار سکیں۔یہ صرف اور صرف حکومت کا فرض نہیں بلکہ سب سے پہلے خواجہ سرائوں کے والدین بہن بھائیوں کا فرض ہے کے وہ ان کی کفالت کریں ان کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آئیں تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں پھر میرا ،آپ کا ہم سب کایہ فرض بنتا ہے کہ ان کے جزبات ،احساسات اور حقوق کا خیال رکھے جتنا ممکن ہو سکے ان کی مدد کریں اور ان کے متعلق مثبت رویہ اپنائیں۔
اپنے اردگرد موجود لوگوں میں بھی شعور اور آگہی پھیلانے اور لوگوں کے منفی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
والدین اپنے بچوں کو معاشرے کے ڈر سے الگ تھلگ بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں والدین کو چاہئے کے ان بچوں کو بھی وہی پیار دیں جو دوسرے بچوں کو دیتے ہیں ان کی تعلیم پر بھی وہی توجہ دیں جو دوسرے بچوں کو دی جاتی ہے تاکہ یہ بھی معاشرے کے قابل انسان بنیں اور آپ کا اور ملک و قوم کا نام روشن کریں اور اس قابل بنائیں کے آپ اپنی اولاد پر شرم نہیں بلکہ فخر محسوس کریں ۔ خواجہ سرائوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں خواجہ سرائوں کے ساتھ تیسرے درجے کے انسانوں کا سلوک نہ کریں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے خواجہ سرائوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نبھائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں