608

زیدہ ‘ تاریخ کی نظر میں – حافظ عبدالمنعم

زیدہ تپہ آباخیل کا مرکز اور ضلع صوابی کا مشہورقدیم ،تاریخی ،روایتی اور ثقافتی شہر ہے – روایت ہے کہ تقسیم ہند سے قبل ایک انگریز افسر کا یہاں سے گزر ہورہا تھا تو دیکھا کہ ایک چھوٹا بچہ وصف معصومیت ، دور لاابالی پن ولاپرواہی اور بچگانہ عمر سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے کھلی فضا میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پہ فراغت حاجت میں مصروف تھا اور ساتھ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوکر ایک ہاتھ سے سوکھی روٹی بھی کھا اور چبا رہا تھا – انگریز کو ویسے بھی غلام رعایا اور خاص کر پختون قوم سے چڑ تھی تو مقامی ترجمان سے حقارت بھرے انداز میں پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ ترجمان نے بچے کو متوجہ کیا اور انگریز کی حیرت اور حقارت سے آگاہ کیا تو بچے نے غلطی چھپانے اور خجالت سے بچنے کے لئے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ ” چکھی سے آٹا نکالنے کے لئے اوپر دانے ڈالنا پڑتے ہیں “انگریز افسر ،ترجمان کے توسط سے بچے کا یہ دانشمندانہ جواب سن کر ششدر رہ گیا اور کہا کہ” واہ ! اگر زیدہ کے بچے اتنے حاضر جواب ہیں تو بڑوں کا کیا حال ہوگا اور زیدہ کو خطہ یونان کا نام دیا “روایت ہے کہ جب برصغیر میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی اور زیدہ کے معروف خدائی خدمت گار تحریک کے سرگرم رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ عبدالعزیز خان مرحوم کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کرکے انگریز مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے استفسار کیا کہ مسٹر خان! آپ انگریز حکومت کے وفادار ہیں کہ نہیں – تو آزادی پسند اور دلیر عبدالعزیز خان مرحوم نے فوراً جواب دیا کہ میں انگریز حکومت کا نہیں بلکہ ریاست ہندوستان کا وفادار ہوں ۔جس پر انگریز مجسٹریٹ لاجواب ہوگیا -تحریک آزادی کے دوران جب آزادی کے حصول کے لیے سرگرم انڈین نیشنل کانگریس کا وفد صوبہ خیبر پختون خوا( سابقہ صوبہ سرحد) کے دورہ پہ آیا تھا تو اس وفد کے ارکان نے حجرہ تاجوخیل زیدہ میں رات کو قیام کیا تھا اور یہاں کے باسیوں کو ان کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا تھا جن میں مشہور سیاسی وانقلابی لیڈر سبھاس چندر بوس بھی شامل تھے- بڑوں سے سینہ بہ سینہ روایت ہے کہ زیدہ کے خوانین کی اکثریت حریت پسند، مجاہد صفت ،مہمان نواز اور سخی و فیاض تھے – زیدہ کے ارسلا خان تو سخاوت و فیاضی میں ضرب المثل ہے جو کھلے ہاتھ،کھلے دل اور کھلے دسترخوان کا مالک تھا اور دوردراز علاقوں میں ان کی سخاوت ومہمان نوازی کی شہرت تھی ۔

عام لوگ اب بھی کسی کی سخاوت کی مثال دیتے ہیں تو ” سخی ارسلا خان ” کا نام پیش کرتے ہیں- سنا ہے کہ سخی ارسلا خان شاعر بھی تھے انگریز حکومت سے بغاوت کرکے زیدہ سے ہجرت کر تے ہو ئے علاقہ گدون کے گائوں بیسک سے گزر رہے تھے کہ سفر اور تھکاوٹ کی وجہ سے کچھ دیر سستانے کے لئے ایک پتھر پہ بیٹھ گئے کہ اسی دوران وہاں سے چند مقامی خواتین کا گزر ہوا جو مقامی چشمہ سے پانی بھر کر لارہی تھیں – سخی ارسلا خان نے ان سے پانی مانگا تو ایک خاتون نے آپ کا نام پوچھا تو آپ نے نام بتایا ، تو خاتون نے کہا کہ ہم نے تو زیدہ کے سخی ارسلا خان کا نام سنا تھا لیکن آپ کو نہیں جانتے – اس پہ آپ نے کہا کہ میں وہی زیدہ وال سخی ارسلا خان ہوں۔یہ سن کر خاتون نے برجستہ ٹپہ ( پشتو شعر) پڑھا کہ ” اول د ٹول کلی سردار وے اوس د بیسک پہ گٹہ ناست ئے مسافرہ ” (پہلے پورے گائوں کے سربراہ تھے اور اب پردیسی بن کر بیسک گائوں میں پتھر پہ بیٹھے ہوئے ہو )سخی ارسلا خان کے پاس اس وقت صرف ایک آشرفی باقی رہ گئی تھی آپ نے ٹپہ سن کر یہ آخری آشرفی اس خاتون کو انعام کے طور پر دے دیا – لیکن سفر اور تنگ دستی کے باوجود سخاوت اور فیاضی قائم رکھی – پشتو میں ایک اور کہاوت ان کے متعلق مشہور ہیں کہ ” نوکر زما ئے او ٹٹو د ارسلا خان ساتے ” ترجمہ ( تو خادم ،میرا ہے اور گھوڑا ارسلا خان کا پال رہا ہے ) تاریخ میں زیدہ کے رئیس فتح محمد خان ایک مجاہد اور غازی گزرے ہیں انہوں سید احمد شہید رحمہ اللہ کی جہادی تحریک میں زور و شور سے حصہ لیا تھا اور آریان( ھنڈ ) کے جہادی معرکہ میں مجاہدین کا بھرپور ساتھ دیا تھا یہاں سے مجاہدین کا قافلہ دریائے سندھ کے کنارے غازی سے ہوتے ہوئے بالاکوٹ پہنچا تھا اسی طرح زیدہ کے عجب خان کی حجرہ نوازی اور مہمان نوازی بھی شہرت رکھتی ہے – ان کا ذکر پشتو کے فلسفی شاعر احمد دین طالب نے اپنے دیوان میں کچھ یوں کیا ہے کہ ” لوئے واڑہ زیدہ کے بہ دعا کوی خانانو تہ، ورانہ بہ زیدہ شی کہ پرے لاس د عجب خان نہ وی ” ترجمہ – (چھوٹے بڑے خوانین کو دعا میں یاد رکھیں گے زیدہ پہ اگر عجب خان کا ہاتھ نہ ہو تو یہ برباد ہوجائے گا) البتہ ان کی سخاوت پہ دیہہ ڈوڈھیر ضلع صوابی کے ملک خوئیداد کو ترجیح دی ہے ” عجب خان چہ لوئی رئیس د آباخیلو خو پہ مثل د ملک خوئیداد بہ نہ شی ” ترجمہ ( عجب خان پورے آباخیل کا بڑا خان ہے مگر ملک خوئیداد کی طرح نہیں ہو سکتا(یاد رہے کہ زیدہ شاعر احمد دین طالب کا طویل عرصہ تک مسکن بھی رہا تھا۔زیدہ شہر تعلیم و تربیت، تہذیب وتمدن اور ادب شائستگی میں بھی بے مثال ہے – میرا اندازہ ہے کہ لفظ ” جی” کا پہلا اور زیادہ استعمال یہاں ہوا تھا اور اب بھی پورے صوبے کی بنسبت یہ میٹھا مودب لفظ یہاں کے باشندوں کی زبانوں پہ کثرت سے مستعمل ہے۔

زیدہ کے عوام کی اکثریت دیندار، سیاسی طور پر بیدار مغز اور اہل علم کے دل و جان سے قدردان ہیں – علماء ، مشائخ اور بزرگان دین کا احترام اور دینی تحریکوں میں پیش پیش رہتے ہیں- ایک زمانہ میں زیدہ بازار تحصیل صوابی کے باشندوں کا تجارتی اور کاروباری مرکز تھا باقی علاقوں میں ہفتہ وار میلے لگتے تھے لیکن زیدہ بازار ہفتہ کے سات دن مختلف اشیا کے خرید وفروخت کے لئے کھلا رہتا اور عوام سودا سلف خریدنے کے لئے یہاں کا رخ کرتے – اب بھی زیدہ بازار کا تازہ گوشت اور ذائقہ دار چھولے خوب رغبت سے خریدے اور کھائے جاتے ہیں – میں بذات خود چنا سے پرہیز کے باوجود زیدہ بازار کے اس مزے دار سوغات سے لطف اندوز ہونے کو ترجیح دیتا ہوں – شنید ہے کہ زیدہ سے تقسیم ہند کے بعد انڈیا ہجرت کرنے والے ہندئوں نے بھارت میں زیدہ کے نام سے نیا شہر بسایا ہے جو ان کا یہاں کے عوام اور شہر سے محبت کا ثبوت ہے – زیدہ کے عوام روایتی کھیلوں مخہ( تیر اندازی ) اور کبڈی میں خصوصی دلچسپی ومہارت رکھتے ہیں – پرندے پالنا، شکاری کتے رکھنا ، موسیقی اور گانا بجانا بھی یہاں کی پہچان ہے – شعر و شاعری ان کا پرانا مشغلہ ہے ، زراعت کے لئے بھی یہ سرزمین کا فی زرخیز اور قدرتی حسن و مناظر سے بھرپور ہے – مرور ایام اور مرور زمانہ کے ساتھ اہل زیدہ کے کچھ روایات کمزور پڑگئے ہیں اور ماضی کے برعکس کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن بھر بھی مجموعی طور پر یہاں کے باشندے میٹھی بول ،پیارے انداز اور خوبصورت برتائو میں ثانی نہیں رکھتے- دعا ہے کہ میرے تین پشتوں کے رشتے کا یہ خوبصورت شہر ہمیشہ آباد اور خوشحال رہے ۔آمین یا رب العالمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں