412

غیرت کے نام پر قتل – سید ساجد شاہ

گزشتہ روز پشاور میں ایک جوڑے کے غیرت کے نام پر قتل نے اس تاریخ کو دہرایا جسکی وجہ سے دنیا کے اندر غیرت کے نام پر قتل وغارت کا بازار گرم ہے میڈیا کے اند ر رپورٹس میں اور بالخصوص ہر روز اخباروں میں غیرت کے نام پر قتل کی تصویر اور کہانی اب عجیب نہیں لگتی کیونکہ ہمارا معاشرہ اب used toہو چکا ہے دوسرے الفاظ میں ہمارے معاشرے کے اندر بے بسی اور بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہیں اسی میڈیا پر چلنے والی بے مقصد کہانیوں ،ڈراموں، فلموںنے نوجوان نسل کو جس ڈگر پر چھوڑا ہے اس سے آگے جہنم کے گھڑے کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا ہمارا معاشرہ خالصتاً ایک اسلامی معاشرہ ہے جہاں اس قسم کے واقعات اور اس کے بڑھتے ہوئے رحجانات کوئی نیک شگون علامت نہیں اور اس کو کنٹرول کرنا سب کی ذمہ داری ہے غیرت کے نام پر قتل میں کوئی بھی شخص جب اپنی بیٹی،بیوی،بہو کو کسی بھی شخص کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھے اور اسے بغیر کسی تردد کے مارے تو اسے غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے کیونکہ ایسے واقعات میں انسان کی غیرت اسے گوارہ نہیں کر سکتی اس قبیح اور ظالمانہ رسم میں وقتی طور پر اس جرم کو دیکھا جاتا ہے مگر اسکے پس منظر کو کبھی نہیں دیکھا جاتا جس کے اندر اس قبیح عمل کے علاوہ شکوک و شبہات شامل ہیں اسلئے ہر سال اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے بد قسمتی سے غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں اب اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اس سے دنیا کا کوئی ملک اور قوم محفوظ نہیں روزانہ کے حساب سے اخبار اور میڈیا کے اندر سینکڑوں ایسی کہانیاں ملیں گی جن کو سن کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جس میں خالصتاً رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کیا جاتا ہے بہت سارے لوگ غیرت کے نام پر قتل کو شرم کے مارے چھپاتے ہیں اسلئے ایسے کیسز پولیس میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں مختلف ہوتی ہیں اس کا طریقہ کار بھی الگ ہوتا ہے جن ممالک میں سیکس کو شرم نہیں مانا جاتا اور نہ جرم، اس میں تاہم دونوں پارٹیوں کا آپس میں باہمی رضامندی شامل ہو اسکے علاوہ یورپی ممالک میں شادی کا یہ تصور بھی نہیں کہ با قاعدہ دھوم دھام سے شادیاں ہوںگی کھانے ہونگے خرچے ہونگے صرف2فیصد لوگ چرچ میں شادی کرتے ہیں باقی98فیصد لوگ اس رسم سے آزاد ہیں ایسے ممالک میں تو پسند ناپسند کی بات ہوتی ہے اس لئے یورپ کے اندر زیادہ تر ممالک میں خواتین کے جسموں کو نوچ ڈالنا کوئی جرم نہیں ہاں البتہ بغیر اسکی مرضی کے انہیں بری نظر سے دیکھنا بھی انسان کو کئی سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل سکتا ہے.

اس میں یقیناً مذہب،کلچر روایات کا بہت بڑا دخل ہے مگر اب ہم اگر ان ممالک میں شامل ہو رہے ہیں تو بہت بری بات ہے اور افسوس ناک بھی،حقیقت میں کوئی بھی نظام اور سسٹم دنیا میں اتنا develop نہیں ہو ا کہ وہ انسانی حقوق کو با قاعدہ طور پر تسلیم کرے دنیا کے ہر معاشرے کےdraw backs ہیں آپ اندازہ لگائیں کہ بھارت میں ہر تیسری خاتون جنسی ہراساںہوتی ہے اور وہاں جنسی درندگی کی اموات پوری دنیا میں سب سے زیادہ بھیانک ہیں حقیقت میں کوئی گھر، بازار، گاڑی اس سے محفوظ نہیں ترقی یافتہ ملک بر طانیہ میں سالانہ12قتل غیرت کے نام پر ہوتے ہیں غیرت کے نام پر امریکہ جیسے ملک میں بھی ایک سال میں27قتل ہوئے اس طرح روس میں ایک سال کے دوران غیرت کے نام پر29قتل ہوئے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں اضا فے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے جس پر سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے اور اسکی روک تھام کی بھی، آپ اندازہ لگائیں پاکستان میں 2017میں 194مرد اور376عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں اس میں 253اموات صرف اس وجہ سے ہوئیں کہ اس میں غیر اخلاقیillict relations تعلق سر فہرست رہا 73اموات کی وجہ شادی پر رضامندی نہ ہونا تھی شک کی بنیاد پر93لوگ مرے تاہم پاکستان میں ہر سال1000لوگ غیرت کے نام پر قتل ہونا نیک شگون نہیں اس میں وہ اموات شامل نہیں جو پولیس میں خاندان کے شرم کے مارے رپورٹ نہیں ہوتے 2015میں غیرت کے نام پر 720لوگ قتل ہوئے جس میں 605 عورتیں اور 115 مرد تھے اس طرح ہر سال اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تنزلی کا شکار ہے 1998اور2004کے درمیان اس نوعیت کے3451کیسز عدالت میں رپورٹ ہوئے تاہم واردات کی اس فہرست میں پنجاب پہلے اور سندھ دوسرے نمبر پر رہا ایک سال میں صرف 1261خواتین کا قتل کسی بڑے سانحے سے کم نہیں دنیا کے ٹاپ کلاس ممالک میں چونکہ غیرت کے نام کی کوئی چیز نہیں اسلئے وہاں آپس میں جوڑے کی محبت وپیار کو برقرار رکھنا اعزاز سے کم نہیں سمجھا جاتا وہاں اگر چہ غیرت کے نام پر قتل بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ ان کے رسم ورواج،کلچر میں جس چیز کی ممانعت نہیں وہاں اسے جرم کیوں سمجھا جائے اسکی ایک تازہ مثال آپ سنیتھا رچی کی لے سکتے ہیں جس نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ٹاپ کلاس اشرافیہ پر الزام لگایا کہ دس سال پہلے اسکے ساتھ زیادتی ہوئی تھی سیاسی ناقدین،تبصرہ نگار اور صحافی حضرات اگر چہ اسکو کسی دوسرے angle سے دیکھ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرے کے اندر غیرت کے نام پر بڑھتے ہوئے جرائم میں اضافے کی وجہ کچھ اور ہے جس کو ڈھونڈنا پڑے گا پاکستان دنیا میں اس وقت غیرت کے نام پر قتل ہونے وا لے ٹاپ کے ممالک میں شامل ہیں غیرت کے نام پر جتنے قتل ہوئے اس میں پاکستان کا پانچواں نمبر یقیناً پریشان کن ہے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بعد وانی کی رسم بہت خطرناک ہے جس میں ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو دی جاتی ہے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہو اسکے علاوہ غیرت کے نام پر قتل ہونے کے بعد دشمنیاں اور تنازعات کبھی حل نہیں ہوتے اور اس لئے یہ نظام صدیوں تک چلتا رہتا ہے غیرت کے نام پر قتل کا پس منظر مارنے کے باوجود غمزدہ اور بچھڑا ہوا خاندان پوری زندگی لوگوں میں ذلیل و خوار ہوتا ہے اور اکثر ایسے خاندان کو طعنے دئیے جاتے ہیں جس کوsocialموت کہا جاتا ہے پاکستان جیسے ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے وجوہات کیا ہیں ہزاروں سالوں سے جاری اسpractice میں کمی کیوں نہیں آتی اسکے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں لاگو کیوں نہیں ہوتے اکیسویں صدی میں ہمیں اپنی رسومات ،سسٹم اور طریقہ کار پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو اس نام سے بچانا چاہیے جو پوری دنیا میں ہمارے لئے باعث ندامت ہے خصوصاً ہمیں اپنے ڈرامے، فلمیں، کہانیاں، نیٹورکنگ،میڈیا پر اس حد تک پابندی لگانا چاہیے جہاں ہمیں سوشل ہونے کی وجہ سے ندامت کے آنسو نہ بہانے پڑیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں