487

مزاحمتی سیاست – فواد فیاض

پاکستان میں کروونا کیسز دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں اورہر طرف مایوسی کی فضا پھیلی ہوئی ہے لیکن پہلے لاک ڈائون اور اب یہ چھٹیاں میرے لیے کافی مفید رہیں اور خوب اس سے فائدہ اٹھایا لیکن وہ کیا کہتے ہیں نہ سب کچھ مکمل نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو اس وبا ء کے دوران جس چیز کی یاد مجھے سب سے زیادہ ستاتی رہی وہ چارسدہ سرکلز کے ہونے والے ماہانہ ” سٹڈی سرکلز ” ہیں جس کو پیارے بھائی محمد شہزاد آرگنائز کرتے ہیں اور ہر اجلاس میں ان کے ساتھ عبدالولی خان یونیورسٹی شعبہ پشتو کے چیئرمین ڈاکٹر سہیل خان بھی شریک محفل ہوتے ہیں ۔مئی کے مہینے میں آن لائن سرکل کا بھی انعقاد کیاگیا لیکن آن لائن تک نہ میری رسائی ہے اور نہ ہی مجھے ان لائن سے کچھ سمجھ آتی ہے ۔سرکل میں ہر مہینے الگ موضوع پر نامور پروفیسر صاحبان گفتگو کرتے ہیں لیکن ان سب سرکلز میں جو بحث میرے دل کو بھائی وہ “مزاحمتی سیاست” پر تھی اس موضوع پر ڈاکٹر سہیل خان ،پروفیسر خادم حسین صاحب ، پروفیسر فرہاد آفریدی اور خان زمان کاکڑ نے کھل کر روشنی ڈالی مجھے آج پورا یاد تو نہیں کہ وہاں لفظ بہ لفظ کیا بولا گیا تھا لیکن پھر دلچسپی کی وجہ اس موضوع پر کچھ پڑھ کر زیر قلم لانے کی آج ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے ۔
سیاسی مزاحمت سے مراد عوام کا جبر کے خلاف آواز اٹھانا جب ریاست یا ریاست سے جڑے دوسرے ادارے عوام کے حقوق کی پامالی کر رہے ہوں ۔سیاسی مزاحمت کی بہترین مثال آج کل امریکہ میں ہونے والے مظاہرے ہیں یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایک سیاہ فام شخصکی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں موت واقع ہوئی ۔جارج کو پولیس نے چوری کے شبے میں گرفتار کیا لیکن گرفتاری میں مزاحمت کے دوران پولیس والوں نے جارج کی گردن پہ مسلسل پانچ منٹ تک پائوں رکھا جس پر پورا امریکہ سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگا۔۔لیکن اگر یہ شخص پاکستان میں اس طرح مارا جاتا تو لوگ کیا کہتے پتہ ہے ؟ کہتے ویسے بھی چور ہے شکر ہے مرگیا کیونکہ ہم لوگ تو قانون کو، آئین کو سرے سے جانتے ہی نہیں ۔مزاحمتی سیاست پھر دو طرح کی ہوتی ہے ایک تشدد پہ مبنی دوسری عدم تشدد پہ مبنی ۔جیسے نیلسن منڈیلا نے جدوجہد کی ہے قوم کی خاطر 27 سال جیل کاٹی ہے لیکن پھر بھی ان کی جدوجہد کو آپ مکمل عدم تشدد نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ اپنی کتاب “A long walk to freedom” میں لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنی پارٹی کا عسکری ونگ بھی بنایا ہوا تھا جو کہ مختلف حکومتی دفاتر پر حملہ کرتی تھی. دوسری طرف باچا خان بابا ، گاندھی جی ، محمد علی جناح ان لوگوں نے پوری عمر عدم تشدد پہ مبنی مزاحمتی سیاست کی ہے ۔عدم تشدد کے بارے میں باچا خان بابا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ” کہ عدم تشدد بھی ایک ہتھیار ہے ” ۔اس طرح عمران خان نے پچھلی نواز حکومت کے خلاف جو دھرنا دیا وہ بھی تشدد پر مبنی مزاحمتی سیاست میں آتا ہے کیونکہ آپ نے پی ٹی وی ، پارلیمنٹ وغیرہ پہ حملے کئے لیکن اب مولانا فضل الرحمان نے جو دھرنا عمران خان حکومت کے خلاف دیا وہ بالکل عدم تشدد پہ مبنی تھا ۔ساتھ ساتھ ان میں جو سب سے کامیاب مزاحمتی سیاست ہے وہ تہذیبی مزاحمت ہے جب آپ فن وفنکار کے ذریعے ظالم وجابر کے خلاف بولیں اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں جس طرح حبیب جالب ہر ظالم جابر حکمران کے خلاف کھڑے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے مزاحمتی سیاست کی ۔اس طرح اگر آپ زاہد اسلام صاحب کی کتاب “پاکستان میں طبقاتی جدوجہد” اٹھا کر پڑھ لیں تو وہ بھی اسی چیز پہ مبنی ہے ۔فیض اور فراز نے بھی شاعری کے ذریعے کافی مزاحمتی سیاست کی ۔ابراہیم صاحب کی کتاب “جیل کے دن ، جیل کی راتیں ” شہزاد منظر صاحب کے مضا مین ، منصور عاشر صاحب کی کہانیوں پہ مبنی کتاب “آنکھوں پر ہاتھ” جو کہ 1974 پر منظر عام پر آئی سب میں آپ کو مزاحمتی سیاست کا عنصر ملے گا ۔اسی طرح مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے سو ادیبوں پر مشتمل ایک گروپ بنایا تھا جو کہ WriteOurDemocracy کے پالیسی پرکارفرما تھے اس طرح فرانس میں پیدا ہونے والے لکھاری “FrantZ Fanon” نے اپنے ناول “Black skin white mass” میں کافی اچھے انداز سے الجیریا کے لوگوں کی فرانس کے خلاف مزاحمت کی منظر کشی کی ہے ۔ مزاحمتی سیاست کے لیے آپ کے پاس حوصلہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ انتہائی کٹھن اور بڑے دل گردے والا کام ہے ۔آپ مزاحمتی سیاست کرتے ہیں تو آپ کے پاس ایک لائحہ عمل ہونا چاہیے ایک راہ ہونی چاہیے کیونکہ میرے نزدیک مزاحمتی سیاست پارلیمانی سیاست کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی مزاحمتی سیاست میں آپ کے پاس ایماندار لیڈر ہونا چاہیے جو کہ آپ کو فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے ایک ٹیم کی صورت میں جدوجہد کریں ۔ اگر دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو زیادہ تر مزاحمتیں تشدد پہ مبنی ہوتی ہیں اور عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تشدد پہ مبنی مزاحمت ہی کامیاب ہوتی ہے لیکن اس خیال کو مصنفہ “Erica Chenoweth” نے اپنی کتاب “Why civil war Resistence work ” غلط ثابت کیا ہے جب انہوں نے اپنی کتاب کے لیے 1900 سے لے کر 2006 تک 323 بڑے مزاحمتوں کا مطالعہ کیا اور اس پہ ریسرچ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ تشدد مزاحمت کہ نسبت عدم تشدد پہ مبنی سیاسی مزاحمتیں ہی زیادہ تر کامیاب ہوتی ہے ۔
اس لیے اگر آج واقعی ہم نے ایک قوم بنانا ہے اپنے حقوق مانگنے ہیں تو مزاحمتی سیاست کرنا ہوگی خواہ ہم کو سڑکوں پہ نکلنا پڑے یا میڈیا پہ اپنی آواز اٹھائیں تو ہم بے خوف ہوکے کریں تب جاکے ہمارے مسئلے حل ہونگے اور ہمیں اپنے حقوق ملیں گے کیونکہ مجھے یاد ہے آج سے پانچ ،چھ سال پہلے اگر کوئی محلے کا ٹرانسفارمر بھی خراب ہوتا تو سب لوگ مل کر اس کے خلاف احتجاج کرتے اس لیے وہ بہت جلد ٹھیک ہوجاتا لیکن پتہ نہیں اب وہ لوگ کہاں گئے زمین نگل گئی ان کو یا آسمان کھا گیا اب کوئی پوچھنے والا رہا ہی نہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں