روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھاعوام بھوک سے نڈھال روٹی کو ترس رہی تھی اور ان کی ملکہ عالیہ ان کو روٹی کے بجائے ڈبل روٹی کھانے کا مشورہ دے رہی تھیں یا اسی قسم کی بے حسی اور عوام سے لا تعلقی کی مثالیں تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں، لیکن اس طرح کی مثالیں آج کی جدید اکیسویں صدی میں بھی نظر آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔کیونکہ ہمارے ارباب اختیار جس طرح بے حسی اور عوام سے لا تعلقی کی مثالیں قائم کررہے ہیں اس سے تولوگ شاید ماضی کی مثالیں بھی فراموش کردیں ۔ آج پاکستان کی معیشت انتہائی تنزلی کی جانب گامزن ہے، برآمدات میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے، پیداواری شعبہ منفی سمت میں رواں دواں ہے اور لوگ پانی، بجلی، گیس اور روٹی کے لئے چیخ و پکارکررہے ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے حکمران قوم کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ دعوے بھی کرتے رہے ہیں کہ ملک میں غربت میں کمی ہو رہی ہے ۔موجودہ معیشت کی بے مثال کامیابی کے ترانے گائے جا رہے ہیں حکومتی سطح پر سازو آواز کے ساتھ اور عوامی سطح پر الخاموشی نیم رضا کے اظہار کے طور پر اب ان خاموش ترانوں میں کتنے حکومت کے دعوئوں سے متفق ہیں کتنے نہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔ ایک دفعہ تو میں چونک گیا کہ شاید یہ اتنے بلند و بانگ دعوے اس لئے کئے جا رہے ہیں کہ شاید ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں ۔کیونکہ ہمارا علم بھی تو کم ہے شاید ہماری کم علمی کی وجہ سے ہمیں یہ پتہ نہ چلا ہو کہ ہمارا ملک معاشی لحاظ سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ ہم شاید آنے والے سالوں میں ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں لیکن پھر ذرا گلوبل ویلج کے ہمسایہ دیہات سے مقابلہ کرکے دیکھا تو سمجھ آئی کہ بات تو وہی پرانی ہے
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۔صورتحال ٹس سے مس نہیں ہوئی اور چین، جاپان، ہانگ کانگ، تائیوان کی معیشتوں سے ہمارا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ منطق راقم کی سمجھ سے باہر ہے کہ حکومتی نمائندوںکے مطابق ملک میں تمام آثار معاشی ترقی کی نشاندہی کر رہے ہیں تو پھر اس تمام تر ترقی کے باوجود روزگار کے مواقع میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا ہے ۔یہ حقیقت ثابت ہے کہ حکومت جس معاشی بہتری کی دعویدار ہے اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے ،خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد پانچ کروڑسے زائد ہے اور ایک بڑی تعداد اس لکیر سے ذرا ہی اوپر زندگی کے دن کاٹ رہی ہے۔غربت بڑھ رہی ہے اسی بات کو سمجھ لیجئے کہ میگا پروجیکٹس سے بیروزگاری ختم نہیں ہو گی پہلے ایسا نہیں ہوا آئندہ بھی نہیں ہو گا، دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا ۔ایشیاء میں بھی جن ملکوں نے ترقی کی ہے وہ میگا پروجیکٹس قائم کر کے نہیں کی ہے انہوں نے کاٹیج انڈسٹری کو پھیلایا، چھوٹی صنعتوں کے انڈسٹریل کمپلیکس قائم کئے،روزگار کے مواقع بڑھے تو بیروزگاری میں کمی ہوئی اور خوشحالی آئی۔ملائیشیاء ، انڈونیشیا اورچین میں یہی ہوا جب چین کے صدر شی چن پنگ پاکستان آئے تو انہوں نے حکومت پاکستان کو یہی مشورہ دیا کہ چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیں چھوٹے صنعتکار وجود میں لائیں،انڈسٹریل کمپلیکس قائم کریں کیونکہ چین کی ترقی کا باعث بھی یہی سب کچھ بنا ہے ہمیں دوسروں سے بھی تو کچھ سیکھنا چاہئے صرف لکیر کا فقیر نہیں بننا چاہئے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں وطن عزیز میں بے روزگارافراد کی تعداد میںاضافے سے اب ملک میں بے روزگار افرادکی تعداد 40لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اسی مدت میں تقریباً 8.5ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے اور اب تقریباً54ملین افرادانتہائی غربت کے زمرے میں آتے ہیں۔ عوام پر اونچی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس نافذ کر کے ،بجلی اور گیس کے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کر کے ،قومی اداروں کو نجکاری کے نام پر فروخت کر کے اضافی وسائل حاصل کئے جائیں
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں سالوں اور مہینوں کے حساب سے نہیں بلکہ ہر روز اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے اور دکاندار چاہے وہ بڑی بڑی مارکیٹوں میں کاروبار کر نے والے ہوں یا اتوار بازاروں کے سٹالوں پر من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ ہرتیس روز کے بعد پٹرول کی قیمتوں میںاضافے نے مہنگائی کو پائوں لگا دئیے ہیں۔وطن عزیز میںمہنگائی کے آسیب نے جس تیزی سے اپنا سایہ پھیلایا ہے اس کے بہت سے دیگر عوامل بھی ہیں۔جس سے کم آمدنی والے وہ کروڑوں افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو مہنگائی کا مزید بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے شرح سود میں کمی کی حکومتی پالیسی بھی ناکام رہی ہے۔وطن عزیز میں غربت کی سب سے بڑی وجہ مختلف سطحوں پر مالی بد عنوانی اور ذہنی بد عنوانی ہی ہے۔ چنانچہ بد عنوانی پر قابو پائے بغیر غربت میں پائیدارکمی ہونا ممکن ہی نہیںہے ۔گزشتہ چند ماہ سے معیشت کے بعض شعبوں میںمنفی رجحانات نظر آرہے ہیں اور ملک میں دہشت گردوں کی کارر وائیاں اور سیاسی ہنگامہ آرائی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہونے کی شناخت رکھتا ہے زراعت پورے ملک کی بنیاد ہے ۔ لیکن پالیسی سازوں نے غیر ملکی مالیاتی اداروں کے دبا ئو کے زیر اثر زراعت کے شعبے میں دی جانے والی قلیل سبسڈی بھی واپس لے لی ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ دنیا میں ضروریات کی اشیاء کی سستے داموں فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے آج بھی اس شعبے کو زر کثیر کی سبسڈی دی جاتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ زراعت کے شعبے کیلئے خصوصی سبسڈی کا اعلان کرے تاکہ مہنگائی کے ایک اور ممکنہ طوفان کے آگے بند باندھا جاسکے۔ ماضی کی حکومت نے غیر ملکی نجی پاور کمپنیوں سے مہنگے داموں بجلی کی خریداری کے جو معاہدے کئے تھے انہوںنے بھی پیداواری لاگت میں بے محابہ اضافہ کیا اور ہماری صنعتیں غیر ملکی مصنوعات سے مقابلے کے میدان سے باہر ہوگئیں۔اچھی حکمرانی کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت اور ان کے روزگار کا بندوبست کرے ۔(جاری )