310

پشاور یاد آتا ہے قسط٣ – مسرور احمد مسرور

ہفت روزہ پیمان کراچی کے نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے سیاسی انٹرویوز اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ایک دن کی مصروفیات پر مبنی فیچر لکھنے کے بعد پیمان کے چیف ایڈیٹر کی جانب سے سیاسی شخصیات کے جیل جانے اور وہاں گزرے ہوئے دنوں کی بابت فیچر لکھنے کے لئے کہا گیا ان دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا میں وہاں جا پہنچا اور مولانا مفتی محمود سے جو وزارت اعلیٰ کے عہدے کے بعد قومی اسمبلی کے رکن بن چکے تھے ملاقات کی اوراپنا مدعابیان کیا انہوں نے فرمایا کہ اسمبلی کے وقفے میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اسطرح جیسے ہی قومی اسمبلی کا وقفہ ہوا کیفے ٹیریامیں مولانا مفتی محمود سے ایک تفصیلی نشست ہوئی اور میں نے ان کے جیل جانے کی کہانی کو اپنی ڈائری میں سمولیا یہ سیاست سے ہٹ کر لیا گیا انتہائی دلچسپ انٹرویو رہا بہت دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات سننے کو ملے آگے کسی قسط میں اس انٹرویوکے دلچسپ اقتباسات ضرور تحریر کروں گا۔



جو قارئین آئین کے لئے اہم اور دلچسپی کا باعث ہوں گے کسی اور شخصیت سے جیل جانے کی کہانی قلمبند کرنے کاموقع تو ہاتھ نہ آیا لیکن پیمان کے چیف ایڈیٹر صاحب کی طرف سے ہدایت ملی کہ اگست کے مہینے میں یوم بابڑا منایا جاتا ہے اس دن کے حوالے سے نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان سے انٹرویو کیا جائے میں ان کی چارسدہ کی رہائش گاہ ولی باغ جا پہنچا پتہ یہ چلا کہ وہ تو صوبائی وزیر اطلات افضل خان کے ہمراہ کالام تک گئے ہیں یہاں سے میں ان کی مدین والی رہائش گاہ پہنچا جو مین سڑک پر واقع تھی کالام سے ان کی واپسی اسی راستے ہونی تھی میں نے یہاں ان کا انتظار کرنا بہتر سمجھا بہر حال وہ واپس آئے تو ان سے بابڑا کے واقعات کی تفصیل جاننے کی بات کی انہوں نے پوری تفصیل کے ساتھ تمام واقعات بیان کئے اسطرح یہ انٹرویو بھی بہت اہم رہا جسے پیمان میں با بڑا کی کہانی ولی خان کی زبانی کے عنوان سے شائع کیا ہماری کوشش ہوگی کہ روزنامہ آئین اس کہانی کو اگست کے مہینے میں اپنے صفحات پر جگہ دے ان دنوں جب مولانا مفتی محمود وزیر اعلیٰ تھے نیشنل عوامی پارٹی ان کی اِتحادی جماعت تھی افضل خان وزیر اطلاعات تھے تو دیر سے آگے کوئی قبائلی علاقہ تھا جہاں کے ایک سردار نواب آف جندول خان کو علاقے کے لوگوں نے اپنے علاقے میں آنے پر پابندی عائد کررکھی تھی کچھ وہاں کے لوگوںاور نواب آف جندول کے آپس کے اختلافات تھے جس کے نتیجے میں وہ اپنے علاقے میں نہیں جاسکتے تھے نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی نواب آف جندول نے حکومت کا سہارا لیکر اپنے علاقے میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی کی صوبائی وزیراطلاعات افضل خان ،خان عبدالولی خان اور دیگر پارٹی کے لیڈر صاحبان نے ایک قافلے کی شکل میں وہاں جانے کی کوشش کی ایک جیپ میں میرے علاوہ چند دوسرے صحافی حضرات بھی اس قافلے میں شامل تھے۔



دیرسے پہلے ایک علاقہ میدان آتا ہے جس کے بالکل سامنے پہاڑ تھے جہاں اس قافلے کو جانا تھا مخالفین نے جندول خان کی علاقے میں آمد روکنے کے لئے سڑک کے بیچ میں بڑے بڑے پتھر رکھ کر سڑک کو بلاک کردیا تھا ہم جس سڑک پر رواں دواں تھے اس کے دونوں طرف پہاڑی تھی جب سڑک پر سے پتھروں کو ہٹانے اور راستہ کھولنے کے لئے دو لوگ آگے بڑھے تو سامنے پہاڑ سے فائرنگ شروع ہوگئی۔قافلے میں شامل تمام لوگ گاڑیوں سے اتر کر پہاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے فائرنگ سے وہ دو لوگ جو رکاوٹیں ہٹانے کے لئے آگے بڑھے تھے اپنی جان سے گئے پہاڑ پر موجود لوگوں نے یہ پیغام بھیجا کہ جندول خا ن کو نہیں آنے دینگے باقی تمام لوگ آسکتے ہیں۔



فائرنگ کے دوران ایک گولی ہماری جیپ میں سے آرپار ہوگئی لیکن وہاں موجود صحافی حضرات دیوار کی آڑمیں پناہ لے چکے تھے اسطرح خیریت ہی رہی حکومت کی طاقت پرجندول خان کو اپنے علاقے تک پہنچانے کامشن ناکام رہا اور واپسی کا سفر اختیار کیا گیا یہ قافلہ صبح سے سویرے نکلاتھا اسلئے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا البتہ واپسی کی راہ اختیار کرتے ہوئے راستے میںجنرل حبیب اللہ خان خٹک کی رہائش گا ہ راستے میں پڑی یہ قافلہ وہاں رکُا ناشتہ وغیرہ کیا حکومت کے لوگ اس ناکامی پر بہت سیخ پاتھے بہت غصے میں بیانات دیئے گئے لیکن راستے میںحکومتی غصہ ٹھنڈا ہوتا گیا بیان میں بھی نرمی کا اظہار کیا گیا البتہ پشاور پہنچتے ہی تمام بیانات واپس لے لئے گئے۔ صحافتی کیریئر کی یہ ایک مہماتی صحافتی کوریج تھی جس سے گزرکر زندہ سلامت واپس اپنے گھر پہنچے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں