492

آن لائن کلاسز ، طلبہ کا ایک اور امتحان – شاہد جان

کورونا وائرس وبا ء نے تقریباًدنیا کے تمام ممالک کو متاثر کیاہے اور بہت سارے لوگوں کو زندگی سے محروم کردیاہے اور اس کے وار اب تک پوری دنیا میں جاری ہیں ، جہاں کورونا وائرس کی وباء نے لوگوں کو متاثر کیا ہے وہاں اس وبا ء نے پوری دنیا کی معیشت اور اس سے جڑے دیگر شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے ، کورونا وائرس وباء شروع ہونے کے بعد مختلف ممالک نے لاک ڈائون لگایا اور تقریبا ًتمام کاروبار اور دیگر شعبے بند کردیئے گئے ، اس صورتحال میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام ممالک کے تعلیمی ادارے بھی بند کردیئے گئے کیونکہ یہ وائرس انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہوجاتاہے اور انسانوں کو متاثر کرتاہے ،اور یہ خطرہ دیگر مراکزکی طرح تعلیمی اداروں یعنی سکول اور یونیورسٹیوں کے کلاس رومز میں زیادہ اسلئے ہے کہ کلاس رومز میں طلباء وطالبات ایک دوسرے کے نزدیک بیٹھتے ہیں اور ان کے مابین ملاپ بھی زیادہ ہوتاہے اسلئے تعلیمی اداروں کو بھی بند کردیا گیا ،پاکستان میں بھی جب کیسز زیادہ ہونے پر لاک ڈائون کا اعلان کر دیا گیا تو دیگر شعبوں اور محکموں کے ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا گیا ، دنیا کے دیگر ممالک میں جب کورونا کے کیسز کنٹرول ہونے لگے تو انہوں نے لاک ڈائون کو پہلے مرحلے میں نرم کیا او ر بعد میں مکمل طورپر ختم کردیا ، ان ممالک کی فہر ست میں چین سرفہرست ہے ،چین سمیت کئی ممالک نے لاک ڈائون میں نرمی کے پہلے مرحلے میں مقرر کردہ ایس او پیز کے ساتھ کاروبار کھول دیا اوردوسرے مرحلے میں تمام شعبے کھولنے کے ساتھ تعلیمی اداروںکو بھی تدریس کیلئے کھول دیاگیا اور ان کیلئے ایس او پیز مقرر کئے ، اب ان ممالک میں سکول کھل گئے ہیں اور مقررکردہ ایس او پیز اور احتیاطی تدایبر کے ساتھ طلباء وطالبات سکولوں اور یونیورسٹیوں میں براہ راست تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ اب بھی وبائی صورتحال کیوجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں اور وہاں پر تعلیم حاصل کرنے کیلئے متبادل طریقے اپنائے گئے ہیں ،یورپی ممالک جو ہم سے بہت آگے ہیں اور ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے عادی ہوگئے وہاں پرانٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسز لی جاتی ہیں اور درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے ،پاکستان میں بھی لاک ڈائون میں نرمی کے بعد خیال کیا جاتا تھا کہ دیگر شعبوں کے ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی کھول دیاجائے گا،جس وقت ملک میں لاک ڈائون لگایا گیا تواس وقت ملک میں میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کے امتحانات تقریباً شروع ہونے والے تھے اور بعض بورڈز کا توپہلاپرچہ بھی ہوگیا ،اس وبائی صورتحال میں حکومت کیلئے طلبہ سے امتحانات لینا بہت مشکل فیصلہ تھا کیونکہ اگر اس وقت امتحان لینے والوں میں بچے اکٹھے امتحان دیئے جاتے تو آج بہت سارے طلبہ خدانخواستہ کرونا سے متاثر ہوتے اور یہ وبا ء ان تمام طلبہ کے خاندانوں تک بھی پہنچ چکی ہوتی اور بہت جلد یہ پورے ملک میں پھیلتی اسلئے حکومت نے پچھلے امتحان کی کارکردگی کی بنیاد پر تمام طلبہ کو اگلی کلاسوں کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا ،پرائمری ، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے حوالے سے تو حکومت نے یہ فیصلہ دیا مگر یونیورسٹیوں کے حوالے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے دیگر ترقیافتہ ممالک کی طرح طلبہ سے آن لائن امتحان لینے کا فیصلہ کیا ،ایچ ای سی کے ساتھ میرے خیال میں اس سے اور کوئی اچھا متبادل پلان بھی نہیں تھا ور وہ اسلئے کہ اگر یونیورسٹیا ں کھول دی جاتیں تو کورونا پھیلنے کا خدشہ زیادہ تھا لیکن اس آن لائن امتحانات اور آن لائن کلاسز میں طلبہ وطالبات کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ، ایک تو ہمارا تعلیمی نظام یورپ اور دیگر ترقیافتہ ممالک کی طرح ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہے نہ اساتذہ کو ٹیکنالوجی کے استعمال پر زیادہ عبور حاصل ہے اور نہ طلبا وطالبات کو اور دوسرا یہ کہ ہمارے ملک میں ٹیکنالوجی پر عبور کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، ملک کے مختلف پوش علاقوں میں انٹرنیٹ سروس میں تھری جی اور فور جی صحیح کام کرتاہے مگر جو پسماندہ علاقے ہیں وہاں پر تو انٹرنیٹ دور موبائل سگنل بھی کام نہیں کررہا توایسے میں وہ طلباء وطالبات کیسے آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں ، ان علاقوں میںسابقہ فاٹا کے زیادہ تر علاقے شامل ہیں جہاں ابھی تک موبائل سروس بند ہے جب موبائل سگنل نہ ہو تو وہاں پر انٹرنیٹ سروس اور تھری جی اور فور جی کیسے کام کریگا، آن لائن کلاسز میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا سابقہ فاٹا یعنی موجودہ قبائلی اضلاع کے طلباء وطالبا ت کوہے اور اسلئے وہ روزانہ کی بنیاد پر کبھی پریس کلبوں کے سامنے تو کبھی تعلیمی محکموں کے باہر احتجاج کررہے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں موبائل سروس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ تھری جی فورجی بحال کیا جائے تاکہ وہ آن لائن کلاسز سے نہ صرف مستفید ہوسکیں بلکہ ان کا سال بھی ضائع ہونے سے بچ جائے ، ان مشکلات کے حوالے سے اسلامیہ کالج کے طالب علم اور ٹرائبل یوتھ مومنٹ کے سینئرنائب صدر مصباح الدین اتمانی کا کہنا ہے کہ انہیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت کے آن لائن کلاسز کے فیصلے پرپہلے دن سے تحفظات ہیں کیونکہ قبائلی اضلاع میں بجلی کے مسئلے کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیٹ سروس کا ہے ، قبائلی اضلاع میں چند مقامات کے علاوہ موبائل پر سگنلز نہیں آتے تو وہاں تھری جی اور فور جی کا کوئی تصور کیسے کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہم انٹرنیٹ کی عدم دستیابی پر عدالت بھی گئے ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ انٹرنیٹ سروسز قبائلی اضلاع کی عوام کا آئینی اور بنیادی حق ہے ، وہاں پر انٹرنیٹ سروس بحال کیا جائے مگر ان ہدایات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا نہ ہماری آواز سنی گئی،انہوں نے کہا کہ ہمارے ہزاروں طلبہ کے مستقبل کوہائیر ایجوکیشن کمیشن اور حکومت نے ذرا برابر بھی توجہ نہیں دی اوریکم جون سے آن لائن کلاسز کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے ،اب ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزیرستان، اورکزئی، کرم اور ہمارے دیگر قبائلی اضلاع کے ہزاروں طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، انکے مستقبل کو برباد کیا جا رہا ہے، وہ آن لائن کلاسز سے کیسے استفادہ کریں؟انہوں نے کہا کہ ہائیرایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز میں حاضری لازمی قرار دی ہے ، جس کیلئے لرننگ مینجمنٹ سسٹم یعنی ایل ایم ایس لگایا گیا ہے اور اس اٹینڈنٹس کی بنیاد پر ہی طلبا و طالبات کو پروموٹ کیا جائے گا تو انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کیوجہ سے ہمارے جو ہزاروں طلبا و طالبات آن لائن کلاسز سے محروم ہو رہے ہیں ان کا کیا بنے گا کسی کے ساتھ ان کی کوئی فکر نہیں، مصباح الدین اتمانی کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کلاسز کے آغاز سے قبل نہ انٹرنیٹ سے محروم قبائلی طلبہ کے بارے میں سوچا نہ کوئی پالیسی بنائی، نہ انہوں نے ان پسماندہ علاقوں کے طلبا وطالبات کی درس وتدریس کیلئے کوئی طریقہ کار وضع کیا، انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ سروس موجود ہے وہاں پر سگنلز اور انٹرنیٹ اس قدرمضبوط نہیں کہ طلباوطالبات آن لائن کلاسز سے استفادہ حاصل کرسکیں ،

عبدالولی خان یونیورسٹی میں 11 ہزار سے زیادہ طلبا و طالبات پڑھ رہے ہیں، ان کیلئے لرننگ مینجمنٹ سسٹم کا آغاز کیا ہے، اس کے ساتھ دو تین اور سوفٹ وئیرز کنیکٹ کئے گئے ہیں، 11 ہزار طلبہ جب لرننگ مینجمنٹ سسٹم میں اٹینڈینس کیلئے لاگ ان ہو جاتے ہیں تو سسٹم ڈائون ہو جاتا ہے، 40 منٹس کی کلاس ہوتی ہے اور اوپر سے انٹرنیٹ کمزور ہو جب ہمارے طلبہ آن لائن کلاسز کیلئے بہت مشکل سے لاگ ان ہوجاتے ہیںتو اکثر کلاس ختم ہوچکی ہو تی ہے ، انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز کیلئے کوئی خاص ٹائم مقرر نہیں کیا گیا ہے، جب ٹیچر کی مرضی ہوتی ہے تو وہ واٹس ایپ گروپ میں میسج ڈالتا ہے، اس وقت کوئی فارغ ہو یا نہ ہو، کسی کے پاس سگنل ہو یا نہ ہو، موبائل یا ڈیوائس چارج ہو یا نہ ہو کلاس شروع ہو جاتی اور یوں ختم ہو جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز پر انہیں اعتراض نہیںیہ بہترین اقدام ہے لیکن اس سے قبائلی اضلاع کے ہزاروں طلبا و طالبات انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کیوجہ سے محروم رہ جاتے ہیں ان کا کیرئیر بری طرح متاثر ہورہاہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے طلباء کی تصایر سوشل میڈیاپر وائرل ہوئی ہیں کہ کس طرح قبائلی اضلاع کے طلبہ کو آن لائن کلاسز میں مشکلات کا سامنا ہے ،ہمارے طلبا ء آن لائن کلاسز کیلئے کہاں کہاں پر بیٹھ جاتے ہیں، وہ انٹرنیٹ سگنلزکیلئے پہاڑوں پر اس شدید گرمی میں چڑھ جاتے ہیں، وہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیںلیکن پھر بھی ان کا مقصد پورا نہیں ہورہا ،کمزور انٹرنیٹ سروس کیوجہ سے زیادہ تر طلبہ کلاسز سے پوری طرح مستفید نہیں ہورہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز مکمل طور پر بحال کر دی جائیںیا قبائلی طلبا و طالبات کیلئے یونیورسٹیوں میں رہائش اور خوراک کا بندوبست کر کے ایڈجسٹ کیا جائے تاکہ وہ وہاں آن لائن کلاسز لے سکیں، کیونکہ ہم تو فیسز اب بھی ادا کر رہے ہیں لیکن کلاسز سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ پشاور یونیورسٹی کیمپس کے ناظم وسیم حیدرکا کہنا ہے کہ حکومت اور ایچ ای سی نے آن لائن کلاسز شروع تو کردی ہیں لیکن ان آن لائن کلاسز میں حائل مشکلات کے حل کیلئے ابھی تک کوئی اقدام نہیں کررہے جس کی وجہ سے طلبہ مزید بے چینی کے شکار ہو رہے ہیں ،آن لائن کلاسز کیلئے حکومت ایمرجنسی بنیادوں پر قبائلی اضلاع میں انٹرنٹ سروس بحال کرے اور ملک کے دیگر حصے جہاں پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں انہیں بھی یہ سہولت مہیا کی جائے ،جن علاقوں میں حکومت فوری طورپر انٹرنیٹ بحال نہیں کرسکتی ان علاقوں کے طلبہ کیلئے انٹرنیٹ سہولت والے علاقوں میں ہاسٹلز کا مناسب بندوست کریں تاکہ ان کا سال یا سمسٹر ضائع نہ ہوجائے ،ا نہوں نے کہا کہ آ ن لائن کلاسز میں صرف طلبہ کو مشکلات نہیں بلکہ بہت سارے اساتذہ ایسے بھی ہیں جن کو ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل نہیں،ان اسا تذہ کیلئے ایچ ای سی فوری ٹریننگ سیشن اور ورکشاپس منعقد کرے اس کے ساتھ حکومت خصوصی انٹر نیٹ پیکچز مہیا کرے تاکہ آن لائن کلاسز طلبہ کیلئے مالی مسئلہ نہ بنیں ، وسیم حید رنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گزشتہ حکومت کے پرائم منسٹر لیپ ٹاپ سکیم کا دوبارہ آغاز کریں اسطرح آن لائن کلاسز کی وجہ سے طلبہ نہ تو اب اپنے تعلیمی اداروں کے لائبریری استعمال کرتے ہیں اور نہ سپورٹس سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیںاسلئے حکومت جامعات کو پابند کریں کہ وہ طلبہ سے صرف ٹیوشن فیس لیں اور دیگر تمام فیسوں کو معاف کریں،آن لائن امتحانات کو فی الحال اگست تک موخر کیا جائے کیونکہ آن لائن امتحانات میں طلبہ کی صلاحیتوں کی صحیح جانچ نہیں کی جاسکتی ۔


آن لائن کلاسز اور لاک ڈائون کے بعد طلبہ کو درپیش مسائل پر گزشتہ ہفتے جمعیت طلبہ اسلام پاکستان کے زیر اہتمام جمعیت سیکرٹریٹ میں آل سٹوڈنٹس آرگنائزیشنز کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام طلبہ تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آن لائن کلاسز کیلئے قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس کو جلد از جلد بحال کیا جائے،اس اجلاس سے تمام طلبہ تنظیموں کی مرکزی قیادت نے خطاب کیا اور تمام نے متفقہ طورپرحکو مت سے ایس او پیز کے تحت یونیورسٹیوں کے کھلنے کامطالبہ کیا اور واضح کیا کہ اگر یونیورسٹیز کھولنا ممکن نہیں تو اس صورت میں آن لائن کلاسز لینے کیلئے ضم شدہ اور صوبہ کے دور دراز اضلاع میں انٹرنیٹ اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے اس طرح تمام طے شدہ امتحانات کینسل کئے جائیں اور خیبر پختونخوا کے جن دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے ان اضلاع کے طلبہ کیلئے ایس او پیز کے تحت ہاسٹلزکھولے جائیں ، اجلاس میں طلبہ تنظیموں نے موجودہ بجٹ میں تعلیمی فنڈ میں کمی کرنے کو مسترد کیا اور حکومت سے جامعات کیلئے تعلیمی پیکج کا مطالبہ کیا جس کے ذریعے صوبے کی سرکاری جامعات کے مالی خسارے کو ختم کرکے طلبہ کوتعلیم کی تمام فیس معاف کی جاسکے،اجلاس میں تمام تنظیموں نے آن لائن کلاسز میں مشکلات پر طویل بحث کی اور فیصلہ کیا ان مشکلات کو ختم کرنے کیلئے مشترکہ کمیٹی بنائیں گے جو کہ طلبہ کے تمام مسائل اور مشکلات ایچ ای سی اور حکومت کے سامنے رکھے گی ۔

آن لائن کلاسز کے حوالے سے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے پروفیسرڈاکٹر صادق خٹک کا کہنا ہے کہ موجودہ وبائی صورتحال میںایچ ای سی اور یونیورسٹیز کے پاس آن لائن کلاسز سے بہتر کوئی اور آپشن موجود نہیں تھا ، اگر اس آپشن کو استعمال نہ کیا ہوا ہوتا تو نہ صرف ہماری یونیوسٹیوں کا بین لاقوامی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعلیمی سیشن متاثرہوتا بلکہ طلبہ کے سال یا سمسٹر ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی تعلیمی نظام کو بھی بہت نقصان پہنچتا، ان کے مطابق آن کلاسز چونکہ اس وقت ملک میں پہلی مرتبہ شروع ہوئے ہیں اسلئے اس میں مشکلات ضرور ہیں مگر طلبہ اور ہمارے تعلیمی نظام کیلئے بہت اچھا ثابت ہوگا کیونکہ یہ طلبہ جب یونیورسٹی سے فارغ ہوجاتے ہیں تو یہ پروفیشنل فیلڈمیں داخل ہوجاتے ہیںاور اکثر باہر ممالک اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں جہاں پر زیادہ تر کلاسز آن لائن اور دیگرمواد کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ ہوتاہے اسلئے اگر ابھی سے ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ اس سے عادی ہوجائیںتو آنے والے وقت میں ان کو مشکلات نہیں ہونگی اور یہ طلبہ دیگر ترقیافتہ ممالک کے طلبہ سے بغیر کسی رکاوٹ اور چیلنج کے مقابلہ کر سکیں گے ۔پروفیسر ڈاکٹر صادق کی بات درست ہے کہ موجودہ دور میں ان طلبہ کو آن لائن کلاسز میں مشکلات ضرور ہیں مگر یہ آنے والے وقت میں تعلیمی نظام اور طلبہ دونوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہونگے کیونکہ باہر تو یہ سسٹم کئی سالوں قبل شروع ہوگیا ہے مگر پاکستان وہی پرانے روایتی نظام کے تحت چل رہاہے اوریہی وجہ ہے کہ جب پاکستانی طلبہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہوجاتے ہیں اور باہر یورپی ممالک جاتے ہیں تو وہاں پر ان لوگوں کو اکثر ٹیکنالوجی استعمال کے مسائل اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اب اگر یہ طلبہ ابھی سے اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے عادی ہوجائیں تو پھر مستقبل میں پاکستانی طلبہ کو اس چیلنج کاسامنا نہیں ہوگا۔کرونانے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تعلیمی نظام کو متاثرضرور کیا ہے مگر اس وباء نے پاکستان کے تعلیمی نظام کو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کر دیاہے، پتہ نہیں کہ کرونا نہ آتا تو پاکستان کب ٹیکنالوجی سے لیس اس نظام کی طرف جاتا جبکہ باقی ترقی یافتہ ممالک میں یہ نظام کئی سالوں سے چل رہاہے۔یہ نظام پاکستان میں ابھی شروع ہوگیا ہے اسلئے اس میں طلبہ اوربعض اساتذہ کو مشکلات کا سامنا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اور انٹر نیٹ اورٹیکنالوجی سے واقف ہونے کیوجہ سے یہ مشکلات بھی حل ہوجائینگی،بعض پسماندہ علاقوںاور قبائلی اضلاع کے طلبہ اور اساتذہ دونوں کو انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کیوجہ سے مشکلات درپیش ہیں ،حکومت کو قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بحالی اور دیگر تمام مشکلات کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہئیں تاکہ پاکستان بھی دنیا کے دیگرترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تعلیم کے میدان میں پیچھے نہ رہ جائے

آن کلاسز چونکہ اس وقت ملک میں پہلی مرتبہ شروع ہوئی ہیں اسلئے مشکلات ضرور ہیں مگر یہ طلبہ اور ہمارے تعلیمی نظام کیلئے بہت اچھا ثابت ہوگا کیونکہ اکثرطلبہ باہر ممالک میںاعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں جہاں پر زیادہ تر کلاسز آن لائن اور دیگرمواد کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ ہوتاہے ، پروفیسر ڈاکٹر صادق خٹک

حکومت کے آن لائن کلاسز کے فیصلے پرپہلے دن سے تحفظات ہیں کیونکہ قبائلی اضلاع میں بجلی کے مسئلے کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیٹ سروس کا ہے ، قبائلی اضلاع میں چند مقامات کے علاوہ موبائل پر سگنلز نہیں آتے تو وہاں تھری جی اور فور جی کا تصور کیسے کیا جائے، مصباح الدین اتمانی

آن لائن کلاسز کیلئے حکومت ایمرجنسی بنیادوں پرقبائلی اضلاع میں انٹرنٹ سروس بحال کرے ،جن علاقوں میں حکومت فوری طورپر انٹرنیٹ بحال نہیں کرسکتی ان علاقوں کے طلبہ کیلئے انٹرنیٹ سہولت والے علاقوں میں ہاسٹلز کا مناسب بندوست کرے ، وسیم حیدر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں