حال ہی میں رونما ہونے والے کئی ایک واقعات بالخصوص پشاور کے تہکال اور نواحی علاقے متنی میں پولیس اہلکاروں نے جس طریقے سے اپنے احتیارات سے تجاوز کیا ہے اور ردعمل میں عام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو اس سے نہ صرف یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے کہ 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پولیس میں اصلاحات کے دعوے حقیقت میں کچھ نہیں تھے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے عوامی حمایت اور اعتماد کھوچکے ہیں ۔ لہٰذا اب حکومت بالخصوص پولیس فورس کے اعلیٰ عہدیداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایک ایسی پالیسی مرتب کریں جس سے نہ صرف پولیس اور عہدیدار احتیارات کا ناجائز استعمال ترک کردیں بلکہ عوام میں پولیس کی کھوئی ہوئی ساکھ اور اعتماد بحال ہوجائے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے اختیارات کے غلط استعمال یا تجاوز صرف پشاور کے علاقے تہکال کے نوجوان رضی اللہ عرف عامر یا پشاور کے نواحی علاقے متنی میں انسداد دہشت گردی پولیس کے مقابلے میں عرفان اللہ آفریدی سمیت چار افراد کے مارے جانے تک محدود تھا۔ روزانہ کے اخبارات اٹھاکر دیکھیں تو ملک کے طول وعرض میں اس قسم کے واقعات تواترسے ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ چند روز قبل پنجاب کے اوکاڑہ ضلع کے ایک پولیس تھانے کے ایس ایچ او نے ایک نوجوان خاتون کو زبردستی شادی کیلئے مجبور کرنے کیلئے نہ صرف مذکورہ خاتون کی سرعام بے عزتی کی تھی بلکہ ان کے بوڑھے باپ اور دیگر رشتہ داروں پر بھی تشدد کیا تھا۔ گو کہ خیبر پختونخوا کے پولیس کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ پنجاب، اسلام آباداور کراچی کے پولیس سے بہتر ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے جب یہ پولیس والے کسی غریب اور لاچار آدمی کو دیکھتے ہیں تو پھر یہی پولیس خیبر پختونخوا کے روایتی پولیس اہلکاروں کا غیر رروایتی رویہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2006 سے 2012 تک خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکارو ں اور افسران نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے لازوال کردار اداکردیا ہے۔ بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پولیس اہلکاروں کی اپنے اپنے آبائی اضلاع میں تعیناتی اور پولیس عہدیداروں کو ضلعی سول انتظامیہ کے چنگل سے نکالنے کے بعد اب اس فورس میں اختیارات سے تجاوز اور عام لوگوں کے ساتھ رویوں میں کافی فرق آیا ہے۔ رہی سہی کسر سیاسی مداخلت سے پوری کی جارہاہے۔ کسی وقت میں وزیر اعلیٰ یا وزیر کسی بھی ضلعی پولیس آفیسر کو مشورہ دیتے تھے مگر اب ایک سپاہی کے پشت پر حکمران جماعت کے ایک عام کارکن سے وزیر اور مشیر تک لوگ موجود ہوتے رہتے ہیں سب سے بڑھ کر اختیارات سے تجاوز اور فرائض میں غفلت کے رحجان نے نہ صرف پولیس فورس بلکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عوام میںاہمیت پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر ایک طرف تہکال کے عام پر پولیس اہلکاروں نے بہت زیادہ تشدد کرکے اور انہیں بے عزت کرکے عومی غیض وغضب کو ازخود دعوت دے دی ہے تو دوسری طرف باڑہ خیبر کے عرفان اللہ کے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ماروائے عدالت قتل پر حکمرانوںاور عدلیہ کی مسلسل خاموشی پر کئی ایک سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں پشاور ہائیکورٹ نے ایک فیصلے میں فوجی عدالتوں کی جانب سے لگ بھگ مبینہ دہشت گردوں کو دی گئی سزائوں کو اس بنا ء پر کالعدم قرار دیکر انہیں باعزت بری ہونے کا حکم دیا ہے کہ ان ملزمان کو صرف اقبال جرم کی بنیادپر سزائیں دی گئی ہیں اور انہیں ان کے صفائی کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اسی طرح استغاثہ کی جانب سے کمزور بنیادوں ہر بنائے گئے عام مقدمات پھر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا سلسلہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونیوالے ہلاکت خیز حملے کے بعد سے شروع ہوا۔ اس سانحے کے بعد حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قومی لائحہ عمل مرتب کرکے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے ایک قانون کو بھی منظور کیا تھا، مگر بدقسمتی یہ رہی کہ اس قانون کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے علاوہ حزب اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور عہدیداروں پر بھی کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ بعد میں فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق اس قانون بل کو توسیع دینے کی مخالفت کی گئی۔ فوجی عدالتوں کے قانون کے غلط استعمال پر بھی تنقید کی گئی ۔ ان تمام واقعات میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تقویت پہنچنے سے ذرائع ابلاع کا اہم کردار رہاہے آئین کے آرٹیکل 10 اور 10-اے جرائم کے رپورٹنگ کے حوالے سے بہت واضح ہے اور تمام تر ذرائع ابلاغکے ادارے روزانہ کئی کئی بار ان دونوں آئینی شقوں کی خلاف وزری کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان آئینی شقوں میں واضح طور پر درج ہے 1۔ کہ کسی کو بھی بلا وارنٹ گرفتاری گرفتار یا سرکای تحویل میں نہیں لیا جاسکتا 2۔ گرفتار ہونیوالے شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر فرسٹ کلاس مجسٹریٹ یا سول جج کی عدالت میں پیش کرکے اسے کئے گئے جرم یا اس پر عائد الزام سے آگاہ کیا جانا چاہیے 3۔ گرفتار یا حراست میں لئے جانیوالے شخص کی عزت و ابرو کا خیال رکھنا چاہیے۔یعنی عدالت میں پیش ہونے سے قبل اس کی گرفتاری کے بارے میں نہ ذرائع ابلاغ کے کسی بھی ذرائع میں اس کے بارے میں تحریری یا تصویری تشہیر کرنے کی مخالفت ہے اور 4۔ گرفتار یا حراست میں لئے گئے شخص کے خلاف مقدمہ کی سماعت غیر جانبدارانہ اور آزادانہ طریقے سے ہو۔ مگر بدقسمتی سے کبھی بھی ذرائع ابلاغ یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداروں نے انسانی حقوق سے متعلق ان آئینی شقوں پر عمل درآمد کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے جس کی وجہ سے تہکال کے عامر، باڑہ کے عرفان اللہ آفریدی اور اوکاڑہ کی غریب خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں زیادہ سے زیادہ اصلاحات لائی جائیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان اداروں کے اہلکاروں کے عام لوگوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی روک تھام ہو بلکہ ان اداروں پرعوام کا اعتماد بھی بحال ہو سکے ۔
309