یونیسکو کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کادوسرا بڑا ملک ہے جس کے تقریبا ًدو کروڑ اٹھائیس لاکھ ایسے بچے سکول جانے سے محروم ہیں جن کی عمر ابھی پڑھنے کی ہے یعنی ان کی عمرپانچ اور سولہ سال کے درمیان ہے ۔ اگر چہ ملک میں ملینیم گولز کے حصول اور مفت اور لازمی تعلیم کے لئے پاکستان کی کوششیں جاری ہیں اور حکومت نے امسال کے آخر تک شرح خواندگی ٧٠ فیصد تک پہنچانے کا عزم کیا ہوا ہے۔مگر دوسری طرف حصول تعلیم کے لئے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے ناکافی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت پرائمری، ثانوی اور اعلی تعلیم سمیت کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ آج ہم صرف خیبر پختونخوا میںا علی ٰتعلیم کی راہ میں حائل مشکلات اور نوجوانوں پر اسکے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنی یونیورسٹیز کو انتظامی مالی اور تعلیمی مسائل کا سامنا ہے۔ اس بات میں تو کوئی دورائے نہیں کہ ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا ،سربراہ کے بغیر اس کا چلنا محال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی آئین و قانون میں ہر ادارے اور محکمے کے سربراہ کو تعینات کرنے اور تبدیل کرنے کی واضح ہدایات موجود ہیں اور ہر محکمے یا ادارے کے سربراہ کو لگانے کے مجاز حکام اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ آئین و قانون میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔ آرمی چیف ، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین نیب ، چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تمام آئینی وقانونی عہدے اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ اس پر بروقت تعیناتی کی جائے تاکہ اس ادارے میں کوئی آئینی قانونی انتظامی یا مالی خلاء پیدا نہ ہو۔ بد قسمتی سے اس وقت خیبر پختونخوا کے اکیس سرکاری جامعات میں سے سات یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر کے بغیر چل رہی ہیں جس میںپشاور یونیورسٹی ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور، فاٹا یونیورسٹی درہ آدم خیل، وومن یونیورسٹی مردان، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، یونیورسٹی آف صوابی اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور شامل ہیں۔
ان میں سے بعض جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل اعلیٰ حکام کی منظوری سمیت مکمل بھی ہوچکا ہے مگر باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری نہ ہونے کیوجہ سے عہدے خالی اور انتظامی خلاء ان اداروں کا ستیا ناس کر رہا ہے۔ فاٹا یونیورسٹی کا وائس چانسلر اپنے دو ادوار مکمل کر کے مارچ دو ہزار بیس میں ریٹائرڈ ہو چکا ہے۔ بد قسمتی سے اس نوزائیدہ یونیورسٹی میں نہ کوئی مستقل رجسٹرار تعینات ہے نہ پرو وائس چانسلر، نہ اس لیول کے کسی دوسرے عہدیدار کو اختیار دیا گیا ہے، کہ وہ عارضی طور پر سہی، ادارے کے مالی اور انتظامی معاملات کو چلا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے اکائونٹ میں پیسوں کی موجودگی کے باوجود گزشتہ تین مہینے سے مالی اور چوکیدار سے لیکر پروفیسر صاحبان تک اپنی ماہانہ تنخواہوں سے محروم ہیں اور وہ پریس کلب اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور صوبائی حکومت کی تعلیمی معاملات میں عدم دلچسپی کا یہ حال ہے کہ وومن یونیورسٹی پشاورکی وائس چانسلر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ دوسرے ٹینور کے لئے نام کی منظوری کے باوجود گزشتہ دو سال سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن کی منتظر اور ایکٹنگ چارج کیساتھ یونیورسٹی کے معاملات چلا رہی ہیں جس کو صوبائی حکومت کی سطح پر خراب حکمرانی اور بد قسمتی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پشاور سمیت زیادہ تر یونیورسٹیز میں مالی بحران اور مشکلات کا سوال ہے۔ اس پر بھی اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی مثال صادق آتی ہے۔صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے انتظامی اختیارات تو صوبوں کو تفویض کئے گئے ہیں۔ مگر ان کے لئے بجٹ مختص کرنا اور مالی لحاظ سے چلانا اب بھی وفاق کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ وفاق کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن سفید ہاتھی کی مانند نہ صرف موجود ہے بلکہ وفاق کی جانب سے اعلی تعلیم کے لئے مختص بجٹ کا زیادہ تر حصہ بھی یہی ادارہ مختلف پراجیکٹ کے نام سے ڈکار جاتا ہے جبکہ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنائے ہیں اور تمام پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے مالی اور انتظامی اختیارات اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یعنی دو ملائوں میں مرغی حرام کے مصداق وفاق اور صوبوں کے مابین اختیارات اور خرچ و آمدن کے معاملات میں اختلاف کیوجہ سے اعلیٰ تعلیم کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان دونوں انتظامی اور مالی مسائل کیوجہ سے مشکلات کے شکار ان یونیورسٹیز میں پڑھنے والے ہزاروں طلباء و طالبات ہیں جو کرونا وباء کیوجہ سے گھروں میں بیٹھ کر آن لائن کلاسز کے نام پر خوار ہو رہے ہیں۔ تمام نئے ضم شدہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی مناسب سہولت نہ ہونے کیوجہ سے وہاں کے ہزاروں طلباء و طالبات آن لائن کلاسز سے محروم اور احتجاج پر مجبور ہیں۔ جبکہ شہروں میں رہائش پذیر طلباء و طالبات آن لائن کلاسز میں اساتذہ کی عدم دلچسپی اور ناتجربہ کاری کا رونا رو رہے ہیں۔ اس لئے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے گزارش ہے کہ مٹی پائو والی پالیسی چھوڑ کرہزاروں طلباء کے مستقبل سے کھیلنا بند کردیں۔ نہ صرف تمام یونیورسٹیز میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی ناگزیر ہے بلکہ ان کے مالی اور تعلیمی مسائل کا حل بھی وقت کا تقاضا ہے۔ جس سے پہلو تہی قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
442