442

امریکہ، طالبان معاہدہ افغانستان میں امن کی امید


طالبان اور امریکہ کے درمیان آج ایک معاہدہ ہونے جا رہا ہے، جس کی بدولت افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد امن آنے کی امید ہے ،سب سے بڑی حریف تصور کی جانے والی دو بڑی طاقتیں روس اور چین سمیت ساری دنیا اس مجوزہ معاہدے کی خبروں کا خیر مقدم کر رہی ہیں۔ آج کی نوجوان نسل کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اس خطے میں بدامنی کے اصل محرکات کیا ہیں، جو افغانوں کے ساتھ ساتھ ہماری تباہی اور بربادی کا سبب بنے۔افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی صورت میں امریکی فوج پہلے مرحلے میں پانچ فوجی اڈے خالی کرے گی، انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی توثیق کے بعد ہی معاہدے پر عملدرآمد ہوگا ، طالبان ترجمان کے مطابق 5 ہزار فوجیوں کی واپسی ہوگی۔ کابل میں ایک مقامی ٹی وی چینل طلوع نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد امریکا پہلے 135 دنوں میں افغانستان کے پانچ فوجی اڈوں سے پانچ ہزار فوجی نکالے گا۔تاہم ان کے مطابق اس امن معاہدے کے مسودے پر تب عمل ہوگا جب صدر ٹرمپ اس کی توثیق کریں گے۔کاغذ پر ہم اور طالبان امن معاہدے کے لیے متفق ہوگئے ہیں، لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد تب ہوگا، جب امریکی صدر اس پر متفق ہوجائیں گے۔ادھر طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی بی بی سی کو بھیجے گئے ایک تحریری پیغام میں کہا ہے کہ عبوری معاہدے کے تحت تقریبا ًپانچ ہزار امریکی فوج کا انخلاء ہوگا۔افغانستان میں دائمی امن قائم ہوتا ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو جو ٹاسک سونپا تھا، وہ اسے حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ زلمے خلیل زاد کا معاہدہ تقریبا ًہو گیا ہے۔ جو کچھ طے پایا ہے اس کی رو سے طالبان آٹھ دس دن کے لئے جنگ بندی کریں گے۔ اس مدت کی تکمیل کے بعد معاہدے پر دستخط ہوں گے اور دس دن کے اندر بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ افغان حکومت کی تحویل میں طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہوگا جبکہ بین الافغان مذاکرات کی پیش رفت کے ساتھ امریکی افواج کے انخلا کے عمل کا آغاز ہوگا۔اس سے قبل زلمے خلیل زاد پاکستان مخالف سمجھے جاتے تھے لیکن اب کی بار پاکستان کی خاطر انہوں نے پورے عمل سے بھارت کو باہر رکھا جس کی وجہ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی نے بھی قطر مذاکرات میں ایسا بھرپور تعاون کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان کی ستائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اب کی بار طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور پھر انہیں حل کے قریب لے جانے کے عمل میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ذاتی دلچسپی لی۔ یہ سب چونکہ زلمے خلیل زاد کے علم میں ہے، اس لئے وہ پاکستان کے کردار کا اعتراف کررہے ہیں۔ ماضی کے برعکس پاکستان کے صدقِ دل سے تعاون کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی میں کبھی امریکہ نے اپنے سارے کارڈز میز پر نہیں رکھے۔ امریکہ کی پالیسی کنفیوژن کی شکار رہتی تھی جس کی وجہ سے پاکستان بھی کنفیوزڈ رہتا۔ اب کی بار اپنی افواج کے انخلا اور طالبان کو سسٹم کا حصہ بنانے کی حد تک زلمے خلیل زاد نے کنفیوژن ختم کردی اور جب پاکستان کو یقین ہو گیا کہ امریکہ انخلا اور طالبان کے ساتھ مفاہمت میں سنجیدہ ہے تو پھر پاکستان نے بھی یکسوئی اور سنجیدگی دکھائی۔ اب کی بار افغان حکومت بھی آن بورڈ ہے جبکہ چین اور روس جیسے ممالک بھی اس معاہدے کے حق میں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آج اگر معاہدہ طے پا جاتا ہے تو امریکہ کا آئندہ کیلئے کیا لائحہ عمل ہو گا اور طالبان کیا حکمت عملی اختیار کریں گے ، ہم امید کرتے ہیںکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے بعد افغانستان میں امن آئے گا اور پاکستان میں برسوں سے مقیم افغان باشندے باعزت طور پر اپنے وطن واپس جا سکیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں