ایف اے ٹی ایف(فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) ہمارے لئے مستقل درد سر بنا ہوا ہے۔اس کا تلوار ہر وقت ہمارے سروں پر لہرارہا ہے،اور ہم اس کے خوف تلے زندگی گزر رہے ہیں۔کیا ہمیں اس حوالے سے یہ احساس ہے کہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ میں ڈالنا نہیں ہے؟ہم کب تک آرام اور اطمینان کے ساتھ وقت گزار تے رہیں گے۔
جب بھی کوئی حادثہ ،سانحہ یا قومی و بین الاقوامی واقعات رونما ہوتے ہیں تو ہمیں مہلت مل جاتی ہے،یہ مہلت اس وجہ سے نہیں کہ چلو تلوار سر سے ہٹ گیا بلکہ یہ مہلت اس وجہ سے تھی کہ اپنے غلطیوں کی اصلاح کرسکیں،اپنے حالات کو سدھاریں۔
کووڈ19 کے عالمی وبا نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا جس نے تمام اہمیت کے حامل جاری امور کو وقتی طور پر معطل کردیا،کچھ لوگوں نے اس سے سیکھا اور کچھ کو اس نے سکھایا۔ اس وبا نے ایک طرف عالمی معیشت کاستیا ناس کر دیا،اس کو خطرات لاحق کردیا ہے۔ عالمی معیشت کو سو سال کے بدترین بحران کا سا منا کرنا پڑا۔دو سال کے دوران دنیا کی معیشت سے بارہ ہزار ارب ڈالرنکل جائیں گے۔دنیا کی جی ڈی پی چار اعشاریہ نو فیصد تک سکڑ گئی،آیندہ آنے والے حالات میں امریکہ کی معیشت آٹھ فیصد،جرمنی کی معیشت سات فیصد،جاپان کی معیشت پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تک کم ہوگی۔ عالمی معاشی حالات میں چین کی معیشت نہ صرف مستحکم رہے گی بلکہ اس میں آئندہ نمو کی گنجائش بھی موجود ہیں۔پاکستان کی معیشت مائنس زیرو اعشاریہ ایک اور دوہزار اکیس تک ایک فیصد رہے گی۔
دوسری طرف پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے مہلت بھی دے رکھی ہے ،انہوں نے اپریل میں چار ماہ کے لئے پاکستان پر نظر ثانی کا عمل معطل کردیا تھا۔24 جون کو ایف اے ٹی ایف کا ورچوئل اجلاس تھا ،پاکستان اپنے کیس لڑنے کے لئے رپورٹ پیش کرنے کے لئے تیار تھا تاہم ورچوئل اجلاس میں پاکستان سرے سے ایجنڈے میں شامل تھا اور نہ ہی پاکستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جاسکا۔
بنیادی طور پر ایف اے ٹی ایف نے 27نکات پر عمل درآمد کا کہا تھا جس میں تیرہ نکات پر عمل درآمد ہنوز باتی ہیں۔تیرہ نکات یہ ہیں:
1۔پاکستان کو مثر پابندیوں کا مظاہرہ کرنا ہوگا،جس میں دہشت گردوں کی ملک بھر میں مالی معاونت کا تدارک بھی شامل ہے۔
2۔پاکستان کو بالخصوص کالعدم تنظیموں کے مالیاتی ادورں کے ذریعے مالی امداد کے تدارک کو یقینی بنا ناہوگا۔
3۔پاکستان کو غیر قانونی رقوم جیسا کہ ہنڈی حوالہ وغیرہ کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے۔
4۔نقدی لانے اور لے جانے والوں کو پاکستان نے سزاں کے نظام میں رکھنا ہوگا۔
5۔پاکستان کو اشتہاری افراد اور کالعدم ادروں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادراوں کی دہشت گردی میں مالی معاونت میں تحقیقات کا منطقی نتیجہ پیش کرنا ہوگا۔
6۔پاکستان کو ایف ایم یو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مذکورہ تحقیقات میں مقامی سطح پر مثر تعاون یقینی بنانا ہوگا۔
7۔پاکستان کو اشتہاری افراد اور کالعدم اداروں کے خلاف عالمی تعاون کی بنیاد پر تحقیقات اور سزائیں یقینی بنانا ہوگی۔
8۔ کالعدم اداروں اور اشتہاری افراد کی پراسیکیوشن کرنا ہوگی۔
9۔عدالتوں سے کالعدم اداروں اور اشتہاری افراد کی جائیدادیں ضبط کرنا ہوگی۔
10۔ عدالتوں سے کالعدم اداروں اور اشتہاری افراد کو سزائیں دلوانے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
11۔مدارس کو سکولوں میں ہیلتھ یونٹس کو سرکاری ادارہ بنانا ہوگا۔
12۔تمام کالعدم اداروں اور اشتہاری افراد کی فنڈنگ ختم کرنا ہوگی۔
13۔پاکستان کو کالعدم اداروں اور اشتہاری افراد کی جائیداد اور اثاثوں کی منیجمنٹ کے لئے مستقل نظام بنانا ہوگا۔
ایف اے ٹی ایف نے ان مذکورہ شرائط پر عمل درآمد کرنے کے لئے اکتوبر 2020 تک ڈیڈ لائن دی ہے۔اکتوبر 2020 میں ایف اے ٹی ایف کا متوقع اجلاس شروع ہوگا،جس میں پاکستان کے حوالے سے ان شرائط عمل درآمد پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔پاکستان کو تین ماہ کہ مہلت اب بھی ہے۔ان شرائط پر عمل درآمد کے لئے تین ما ہ کے اندر انسداد منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج ریگولیشن قوانین میں ترمیم کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے کاوشوں کو دیکھا جائے تو انہوں نے انتہائی ذ مہ داری سے ان شرائط پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔اس حوالے سے کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت اس حوالے ترامیم پر کام بھی کررہی ہے۔بجٹ تقریر کے دوران بھی جناب حماد اظہر نے کہا تھا کہ پاکستان جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور 27 نکات پر عمل درآمد کا کہا گیا تھا،قومی ایف اے ٹی ایف رابطہ کمیٹی نے قانون سازی،تکنیکی اور آپریشنل بہتری اک ایک جامع عمل شروع کیا گیا تھا جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ملے ۔27نکات پر اچھی پیش رفت کی گئی ہے اور ایک سال کے اندر چودہ نکات پر عمل درآمد کر لیا گیا،جب کہ گیارہ پر جزوی کام ہوا اور دو پر عمل درآمد کے لئے سخت جدوجہد جاری ہے۔
یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ایف اے ٹی ایف کا غلط استعمال بھی ہورہا ہے خصوصا بھارت اس کا غلط استعمال کررہا ہے،وہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں شکنجے میں کسنا چاہتے ہیں،پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوگا،جس جس نکات پر عمل درآمد ہوچکا ہے بین الاقوامی برادری کے سامنے رکھنا چاہئے اور بین الاقوامی برادری کو بھی چاہئے کہ اس کو سراہے۔بھارت کا پاکستان کے بارے میں پروپیگنڈہ بھی زرو شور سے ہے،حال ہی میں اس نے پراپیگنڈہ اس بات کی نشاندہی کر تا ہے۔
ضروورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی ادارے جس طرح اس حوالے سے یکسو ہوکر کام آگے بڑھا رہے ہیں ساستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرلیں،ایک دوسرے کو برداشت کا حوصلہ پیدا کریں۔پارلیمنٹ جیسے فورم پر حساس ایشوز کو نہیں چھیڑنا چاہئے،وہاں ایسے امور زیر بحث لانا چاہئے جو قومی اور اجتماعی سوچ کی حامل ہو جس سے ہم آہنگی پیدا ہوسکیں،نہ کہ بین الاقوامی دنیا کو اعتراضات کا موقع ہاتھ میں دیا جائے۔ پہلے سے لکھا گیا سکرپٹ پڑھنا چاہئے تاکہ قومی ہم وحدت لانے میں نمایاں کردار ادار کرسکے۔
379