یہ انسان بھی کیا چیز ہے جب پارسائی پہ اتر آئے تو فرشتے بھی رشک کرتے ہیں اور جب بھٹک جائے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ان دونوں کو اللہ پاک نے عقل سلیم عطا کرکے انسان کے ہاتھ میں دے رکھا ہے اور اسے بااختیار بنایاہے کہ میں نے تو تجھے اشرف المخلوقات بنا دیا اب مرضی تمہاری کہ میری دی ہوئی عقل سے کام لے کر کس راستے کو چنتے ہو۔آیا اس راستے کو کہ جو کامیابی کا ہے،اسی پر چل کر جو لوگ آئے ہیں وہ مجھ سے راضی ہیں اور میں ان سے راضی ہوں۔یا اس راستے کو جس میں صرف اور صرف ہلاکت اور تباہی ہے۔اب اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہر انسان عقل سلیم سے مزین ہے وہ جب بھی غلط راستے کی طرف جاتا ہے یہ ایک بار ضرور اس کو جھنجھوڑ تی ہے کہ بھٹکنے والے ہو احتیاط کرو۔کچھ لوگ اس کو محسوس کرتے ہیں،پیچھے ہٹتے ہیں اور صحیح راستہ پکڑتے ہیں جو سیدھا انہیں فلاح تک پہنچادیتا ہے۔مگر اکثر لوگ یہاں بحث شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر اپنے ضمیر سے اپروول لے کر اسی راستے میں ہی نکل پڑتے ہیں اور غلط کاری کی درجہ بندی شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں کام غلط تو ہے مگر اتنا بھی نہیں جتنا فلاں کام ہے۔یا پھر کہتے ہیں کہ ہاں کام تو برا ہے جو میں کر رہا ہوں مگر اس سے برا کام تو فلاں شخص کر رہا ہے۔اسی کی ایک بہترین مثال راجہ گدھ میں بانوقدسیہ نے پیش کی ہے۔وہ کہتی ہے کہ یہ سب اسی ایک بخار کے شکار ہیں جس کا درجہ حرارت مختلف ہے۔کسی کو 96 اورکسی کو104درجے کا بخار ہے اور ہرشخص اپنی بساط کے مطابق اسے برداشت کر رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی ایسا ہی ہے جس کے بس میں دس روپے کی بدعنوانی کی استطاعت ہے تو بڑے اطمینان کے ساتھ کر بھی رہا ہے اور ساتھ کسی بڑے بدعنوان کو کوستا بھی ہے جو لاکھ،کروڑ یا ارب کی بدعنوانی کر تا ہے۔اگر پنکچر لگانے کے لیے کسی پنکچر والے کے پاس جائیں تو وہ ایک کی جگہ دو پنکچر لگا کر دے گا اور ساتھ میں کرپٹ عناصر کو ایک دو گالیاں بھی دے گا کہ ظالموں نے ملک کو تباہ کر دیا۔ایک دن ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں دیکھ رہا تھا کہ ایک نئے فریج کو ایک کاریگر دس ہزار میں مرمت کرنے کا کہہ رہا تھا جسے آزمائش کے طور اس کے پاس لے جایا گیا تھا۔تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ بندہ بھی پھر کہے گا کہ ملک میں بد عنوانی بہت ہے اس لیے ترقی نہیں کررہا۔ اسی قسم کی ایک اور حلال کرپشن اس بار گاؤں میں مجھے دیکھنے کو ملی جو ایزی پیسہ ریٹیلرز کر رہے ہیں۔وہ ہر ہزار روپے پہ پچاس روپے سروس چارجز کے طور پر لے رہے ہیں جب کہ کمپنی کا متعین کردہ ریٹ سترہ روپے ہے۔تعجب تب ہوا جب دوسرے لوگ بھی ان کا دفاع کر نے لگے کہ پچاس روپے کچھ بھی نہیں ہیں۔ آخر یہ لوگ بھی تو کمانے کے لیے بیٹھے ہیں اتنا تو ان کا حق بنتا ہے۔میں نے کہا تو پھر نواز شریف،زرداری،ملک ریاض وغیرہ کو کیوں کوستے ہو انہوں نے بھی کمانے کے لیے پانچ کے ساتھ ایک سے زیادہ صفروں کا اضافہ کیا ہوا ہے جو وہ کر سکتے ہیں۔یہاں سارے لوگ چاہے وہ مزدور ہیں یا سرکاری نوکر بڑے فخر سے کہیں گے کہ کام اتنا نہیں کرتا بس تنخوا ہ مل رہی ہے۔ہر ایک کی کوشش یہی ہے کہ بس آرام سے چھپ کر پیسے کمائے۔حالانکہ یہ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ جو بغیر محنت کے کما رہا ہوں اس سے راحت نہیں آفت اور مصیبت اپنے اور اپنی اولاد کے لیے جمع کر رہا ہوں۔یہی جمع پونجی جو ناجائز طریقے سے حاصل کی جاتی ہے اکثر ہسپتالوں،کچہریوں اور ایسی دوسری جگہوں میں خرچ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جہاں جانے کی کسی کو خواہش نہیں ہوتی۔مگر دیکھنے والا یہاں بھی آنکھیں چراتا ہے اور کوئی جواز اپنے لیے بنا کر اپنے کام میں پھر سے مگن ہو جاتا ہے۔اور تب تک مگن رہتا ہے جب تک اللہ پاک کی بے آواز لاٹھی سر پر نہ پہنچے اور یہ ایسی لاٹھی ہے جو چھوٹی اور بڑی غلطی میں بہت کم تمیز کرتی ہے کیوں کہ یہی چھوٹے گناہ گناہ کبیرہ کا روپ دھار لیتے ہیں اور انسان اشرف المخلوقات کے عالیشان مرتبے سے حیوانیت کی دہلیز پر قدم رکھ دیتا ہے۔
غلط کاری کی کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی کہ چھوٹی ہے یا بڑی اور نہ کسی غلط کام کو چھوٹا سمجھنا چاہئے۔اسلام میں بھی ایسا ہی ہے مثلاً اگر چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو جو ایک روٹی چرائے یا سونا دونوں صورتوں میں وہ چور ہی کہلائے گا اور اسلام کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹنا چاہئے ۔یہ نہیں ہے کہ روٹی چور کو چھوڑدو اور صرف سونا چور کا ہاتھ کاٹ دو۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذاتی فائدے کی خاطر اپنے لیے جواز ڈھونڈنے کا رواج ہے یہی جوازاگر ضمیر پر ایک بار مسلط ہو جائے پھر جو من میں آئے کرو کوئی نہیں روک سکتا،چاہے سارا دن روزہ رکھے اور ساری رات عبادت کرے کیوں کہ دل میں مفاد کی سوچ پیوست ہو،غلط کاموں کی درجہ بندی ہو اور اپنی غلط کاریوں کو چھوٹی سمجھنے لگے تو عبادات بھی حلق سے نیچے نہیں جاتی۔
اللہ پاک سے بس یہی دعا ہونی چاہئے کہ حلال حرام،جائز نا جائز اور صحیح غلط میں تمیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے خزانے سے ہر وہ مباح چیز نصیب کرے تاکہ اسے حاصل کرنے کے لیے کوئی غلط جواز نہ ڈھونڈنا پڑے۔اللہ پاک ہم سب کو توفیق دے۔امین۔
345