اس وقت دنیا کی آبادی 7.5بلین ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہر 12سال سے15سال کے بعد ہم اس میں ایک بلین کا لگاتار اضافہ کر رہے ہیں آپ اندازہ لگائیں 1970میں ہماری جو آبادی تھی آج ہم اسکے ڈبل ہیں ہر سال11جولائی کو بین الاقومی سطح پر اقوم متحدہ کے زیر نگرانی آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے آبادی کو کنٹرول کرنے کے طریقوں اور اس سے پیداشدہ صورتحال پر بحث کی جاتی ہے ورکشاپس اور سیمینارز کے علاوہ walks منعقد کی جاتی ہیں لوگوں میں آگاہی پھیلانے اور بڑھتی ہوئی آبادی نے انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ پانی،خوراک،آکسیجن کی کمی سے مزید کتنی ہلاکتیں ہو سکتی ہیں سائنسی طور پر انسان اپنا دشمن بنتا جا رہا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ماحول بالخصوص جغرافیائی خدوخال اور ecologicalمسائل جنم لے رہے ہیںجبکہ global warmingسمیت قحط کا امکان بڑھ رہا ہے تاہم یہاں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ تین دہائیوں سے ہر سال با قاعدہ یہ دن منانے کے بعد اس کا نتیجہ صفر کیوں ہے؟اگر مسئلہ پوری دنیا کا اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک کا ہے تو انہیں اس چیز کا احساس کیوں نہیں ؟اگر اس دن عام لوگوں میں یہ تاثر اور آگاہی پھیلائی جاتی ہے کہ آبادی کے حوالے سے دقیانوسی خیالات چھوڑ کر اس بات کا مان لیا جائے کہ بڑھتی ہوئی آبادی یقیناً زہر قاتل ہے اور اس سے جنم لینے والے مسائل سے انسانوں کی زندگی کتنی بری طرح متاثر ہو گی ؟آبادی کے بڑھنے سے سب زیادہ خطرہ قدرتی وسائل کا گھٹ جانا ہے خاص طور پر Non renevable resources جو دوبارہ پیدا نہیں ہوتی ان کا کیا بنے گا ؟
ظاہر ہے قدرتی وسائل کم ہونگے تو مسائل ضرور اٹھیں گے آپ قدرت کے بیش بہا تحفے اور وافر مقدار میں پانی کی مثال لیں بہت جلد یہ تحفہ نایاب ہو جائے گا ؟بلکہ آئندہ 100سال میں پانی کے اوپر بین الاقوامی جنگیں لڑی جائیں گی کیونکہ انسانی آبادی کے بڑھتے ہوئے رحجان نے دنیا کے کروڑوں سال سے بنے ہوئے Glacesiresکو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ا ب بھی زیادہ تر کے پی اور بلوچستان کے گائوں میںپینے کا پانی حاصل کرنے پر لوگ ایک دوسرے کوما ر رہے ہیں بلکہ اگر کوئی ریکارڈ چیک کریں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں آج سے پچاس سال پہلے ایک گھر یا خاندان تھا اب وہاں دس فیملیز موجود ہیں پانی کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان زمین اور خوراک کی تقسیم پر بھی جھگڑے ہو رہے ہیں کرپشن کا عنصر بھی بڑھتی ہوئی آبادی کا شا خسانہ ہے اس چیز کی عکاسی بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں بہت زیادہ ہے؟ بڑھتی ہوئی آبادی سے غربت،بے روزگاری، چوری ڈاکے،قتل عام اور دیگر معاشرتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں چین اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو human developmentپر کام کررہا ہے اور چین نے واقعی انسان کو کیپٹل بنایا یعنی ایک سرمایہ، چین کا ہر انسان اس وقت اپنے لئے اور اپنے معاشرے کیلئے کتنا فایدہ مند ثابت ہو رہا ہے کس طرح چین نے ترقی کی راہیں طے کیں، چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا اور چین کی آبادی اس وقت 1,439,449,472 ہے چین نے ہمیں بتا دیا کہ کس طرح ملک اور قومیں ترقی کر سکتی ہیں؟ چین نے نئے شادی شدہ جوڑے کیلئے ایک بچے کی شرط رکھ کر اپنی آبادی کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کی ہے جبکہ تعلیم،صحت اور دیگر اخراجات حکومت برداشت کر تی ہے چین کی مضبوط economy کی وجہ سے امریکہ سخت پریشان ہے کیونکہ 2030تک چین اپنی3ٹریلن ڈالراکانومی کے ساتھ نمبر ایک پر آجائے گا اس وقت بھی چین کے پراڈکٹس دنیا کی بزنس پر حاوی ہے اور دنیا کے سارے ممالک چین سے کاروبار کرنے اور چین سے درآمد شدہ چیزوں پر بھاری ٹیکس دے کر اپنی ذاتی اور ملک کی economyمضبوط کر رہی ہے جبکہ چین کا one belt one roadکا منصوبہ افریقہ،امریکہ،یورپ اور ایشیاء کیلئے سب سے جامع منصوبہ ہے جو ایکclear visionکے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے اور اسے تابع بنانے کا منصوبہ ہے اسکے بر خلاف آپ انڈیا کو دیکھ لیں جسکی آبادی اس وقت 1,380,270 ,828 نفوس پر مشتمل ہے وہاں انسان حیوانوں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہمارے ملک پاکستان کی آبادی اس وقت 220,955 ,441 نفوس پر مشتمل ہے تاہم یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ بہت جلد آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جائے گا اس وقت پاکستان دنیا میں آبادی کے حوالے سے چھٹے نمبر پر ہے ایسے حالات کے اندر پاکستان کیسے surviveکرے گا ؟
بد قسمتی سے تیسری دنیا کے تمام ممالک اپنی سوئی بنانے کے قابل نہیں صرف آبادی میں اضافے کے ساتھ دنیا کے اندر اپنی ساکھ اورeconomyکو برقرار رکھنا کتنا بڑا چیلنج ہے جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں اس وقت دنیا کے سارے ممالک صرف اسی وجہ سے تو غریب ہیں کہ ان کے پاس زندگی گزارنے کیلئے کوئی جامع پالیسی نہیں ذاتی زندگی میں بھی اور حکومت کی سطح پر بھی ہمارے ملک کے عوام آج تک اس فیصلے کو کرنے سے قاصر ہے کہ آبادی کے بڑھنے کا مذہب یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یہ خالص ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ بھیک مانگتے ہوئے شرمسار زندگی سے پروقار اور خوشحال زندگی گزارنا سود رجے بہتر ہے آج بھی ہمارے ہاں لوگ یورپ اور دیگر ممالک صرف اسلئے جاتے ہیں کہ وہ کچھ کما سکیں اور اپنے اور بچوں کی زندگی بہتر بنا سکیں مگر خود ا پنے ملک میں ایسا کرنے کو بہت بڑا چیلنج اور جرم سمجھتے ہیں پاکستان کی طرح دوسرے غریب ممالک کا بھی یہی حال ہے جو روز بروز ابتر ہو تا جا رہا ہے جب 1994میں خصوصی طور پر آبادی کا عالمی دن منایا گیا تو اس وقت179 یہ فیصلہ کیا تھا کہ آبادی کو کم کرنا ان ممالک کا مین ٹارگٹ ہو گا تاہم تین دہائی گزرنے کے بعد بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے ان سفارشات اور اقدامات پر عمل کیوں نہ ہو سکا؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہم اس مسئلے کے ساتھ مخلص نہیں آبادی کا بڑھنا ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور اسکی شروعات gross root levelسے ہونی چاہیے جس میں سیاسی بصیرت رکھنے والے لیڈرز، پالیسی میکرز سمیت، اداروں، حکومت، والدین ،محکمہ آبادی کے اہلکاروں سب کا برابر حصہ ہونا چاہیے۔
UNFPAیعنی یو نائٹیڈ نیشن فار پاپولیشن ویلفیر نے اقوام متحدہ کے sustainable development goals میں آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے جن اقدامات کو اٹھانے پر زور دیا ہے اس پر کام کرنا ضروری ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی ایٹم بم سے کم نہیں اور اگر اس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو مستقبل میں انتہائی تباہ کن قسم کے مسائل جنم لینگے بالخصوص غربت، بیروزگاری، قتل ڈاکے،لاقانونیت، چوری کے حادثات بڑھیں گے ۔