جمعہ کے دن اکثر میرا شیڈول معمولات ومصر وفیات سے بھرا ہوتا ہے اور اِن میں سب میں اہم معمول نماز جمعہ پڑھانا ہوتا ہے۔ گزشتہ جمعہ آفس میں کنٹری ہیڈ کے ساتھ آن لائن میٹنگ صبح 9بجے طے تھی۔ میری گاڑی میں کچھ کام تھا،اسلئے رکشہ کے ذریعے جلدی جلدی آفس پہنچا اور میٹنگ معمول کے مطابق اختتام پذیر ہوئی تو میں نماز جمعہ کے لئے واپس ایک رکشہ میں سوار ہوا۔ میں جب رکشہ میں بیٹھا تو موبائل میں کچھ ای میلز چیک کررہا تھا،اس دوران میری نظر ڈرائیور کے دائیں جانب رکھی دو بیساکھیوں پر پڑی تو میں نے بیساکھیوں کو غور سے دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ ڈرائیورصاحب پائوں سے معذور ہے۔ بہرحال میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ معذور ہیں؟ تو ڈرائیور رحمت ولی جوکہ نوجوان لڑکاتھا،نے جواب دیا کہ ہاں میں معذور ہوں اور رکشہ میں محنت مزدوری کرتا ہوں۔تو میں نے معذوری کی وجہ پوچھی تو رحمت ولی نے کہا کہ بچپن میں پولیو کی وجہ سے میں اور میرا ایک بھائی اس امتحان میں مبتلا ہوئے ہیں۔اس نے بتایا کہ ہمارا تعلق مہمند سے ہے اور چونکہ ایجنسیوں میں عام طور پر پولیو کے قطرے پلانے کو معیوب سمجھتے ہیں تو اس وجہ سے ہمیں یہ مرض لاحق ہوا ہے۔میں نے پہلی بار ایسا بندہ دیکھا جو پولیو کے قطرے نہ پینے کی وجہ سے متاثرگی کا اقرار کررہا تھا۔ اس وجہ سے پولیو کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوا۔اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ پولیو کے حوالے سے کچھ شکوک پائے جاتے ہیں لیکن باقاعدہ لیبارٹری ٹیسٹ او رمستندعلما کرام کی تصدیق کے بعد اسکے پلانے میں کوئی حرج نہیں اور نہ پینے کی وجہ سے نوجوان کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔بہرحال رحمت ولی سے میں نے پوچھا کہ آپ معذور ہوتے ہوئے محنت مزدوری کرتے ہیں تو کوئی مشکل تو نہیں؟ رحمت ولی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ الحمد اللہ، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے،دن کے اختتام تک اللہ اچھی روزی دیتا ہے اور بتایا کہ میں اس سے پہلے ٹیلرنگ کاکام کرتا تھا مگر اسمیں اتنا منافع نہیں تھا اسلئے رکشہ ڈرائیونگ سیکھ لی اوراسی میں اپنی گزر بسر کرتا ہوں۔میں نے پوچھا کہ اگر راستہ میں رکشے میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے تو کیا کرتے ہو؟ کہا کہ ہمارے رکشے والوں کا اس حوالے سے خوب اتفاق ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرہی لیتے ہیں۔ میں نے رحمت ولی کے چہرے پر حلال کمائی کی بات کرتے ہوئے عجیب نور انیت دیکھی اور معذوری کے باوجود وہ فخر سے اپنے ہاتھ کی کمائی پر نازاں تھااور مجھے رسول اللہ ۖ کی یہ حدیث یاد آئی کہ نبی ۖ نے فرمایا ہے: اگر کوئی اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس کو بیچے اور اللہ اس کے ذریعہ اس کی آبروبچائے رکھے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کر ے کہ وہ دیں یا نہ دیں۔
حلال کسب معاش کی اہمیت وفضیلت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر نبی نے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ حضرت آدم زراعت کیا کرتے تھے،حضرت ادریس سلائی کا کام کیا کرتے تھے،حضرت دائود زرہیں بنایا کرتے تھے اور تمام انبیا کرام ۖ نے بکریاں چرائی ہیں۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمدۖ نے بذات خود تجارت کی ہے اور حلال رزق کی طلب کو فریضہ بعد الفریضہ یعنی فرائض (نماز، زکوٰة،روزہ، وغیرہ) کے بعد حلال کمائی حاصل کرنے کو فریضہ وعبادت قرار دیا گیا ہے۔ میں نے رحمت ولی کی باتیں سنیں تو یقینا اس کے عزم وہمت سے متاثر ہواکہ وہ بھیک مانگنے اور دوسروں کی محتاجی کی بجائے خود حلال روزی کماتا ہے۔ یہ معاشرے کی تصویر کا ایک رخ تھا۔ دوسرے رخ کو بھی ذرا دیکھئے۔ میں روزانہ آفس جاتا ہوں تو ایک آدمی کودیکھتا ہوں جو مزدوری کے لئے صبح نکلتا ہے اور اوزار بھی اسکے پاس ہوتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ مزدوی پر جائے، تو وہ بھیک کے لئے ایک سڑک کے بیچ بیٹھتا ہے اور ہر طرف دیکھتا ہے کہ کوئی کچھ دے گا۔ مگر اس کی آنکھوں میں شرمندگی احساس کمتری اور محتاجی کی صاف جھلک دیکھے جاسکتی ہے۔ تو میں تصویر کادوسرا رخ کودیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ حسرت ہے ان بندوں پر جو اپنے ہاتھ کے کمائی جیسے مقدس فریضہ سے سبکدوش ہوکر بھیک جیسی لعنت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔جو انسان محنت مزدوری کرتا ہے اور پھر معذورہوکر بھی رزق حلال کی طلب کرتا ہے تو وہ پر سکون نظر آتا ہے اور جو صحت یاب و تندرست آدمی بھیک مانگتا ہے تو حسرت ویاس ومحتاجی کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔تو اس تصویر کے دونوں رخوں سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ قرآن وحدیث میں اپنے ہاتھوں کی محنت وکمائی کی جتنی بھی ترغیب آئی ہے۔ اس میں برکت وخوشی کا سامان پنہاں ہے خواہ وہ تھوڑی کمائی ہی کیوں نہ ہو، لیکن محنت نہ کرنا یا حلال ذرائع سے نہ کمانا بے سکونی اور بے برکتی و پریشانی کا باعث ہے۔ اللہ تعالی’ ہم سب کو محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور بھیک و مخلوق کی محتاجی سے بچائے رکھیں۔امین