اسلام کے ظہور سے پہلے دنیا میں کوئی عدل کا نظام نہیں تھا غریب اورامیر میںبنیادی فرق تھا ہر جگہ پر فساد تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا تھا غریبوں کی آواز کو دبایا جاتاتھا ظلم فسق و فجور کا دور دورہ تھا ایسے وقت میں آقا ئے نامدار قائد المرسلین حضرت محمد ۖنے عالمی قانون لے کر مکہ مکرمہ میں نبوت کا اعلان کیا تو نظام باطل میں زلزلہ برپاہوگیا اور پھر چند سالوں میں زمین پر عدل قائم ہو گیا انصاف کا بول بولا ہوا آقا اور غلام کا فرق ختم ہو گیا اور معیار تقویٰ مقرر ہوا سودی نظام کا خاتمہ ہو گیا جس سے پورے معاشرے میں خوشحالی اور سکون میسر آیا۔
پھر خلافت اعلیٰ منہاج نبوت قائم ہوئی تو حکمرانی کا ایک ایسا نظام دنیا نے دیکھا جو اس وقت کے دو سپر پاور رومن اور عسکرایران کے نظام کو آن کی آن میں زیر و زبر کر دیا اور مخلوق خدا جو ق در جوق دائرہ اسلام میں بغیر کسی دبائو اور لالچ کے آغوش رحمت میں آنے لگے حتیٰ کہ ایک دفعہ تاریخ ساکن ہو گئی جب وقت کے جلیل القدر خلیفہ سید نا حضرت عمر فارق کو ایک خاتون نے خطبہ سے روک دیا انصاف کی تاریخ میں وہ حق فیصلہ آیا جس سے اسلام کی حقیقی تصویر سامنے آ گئی کہ وقت کے حکمران کا بھی احتساب ہو سکتا ہے کیونکہ سید نا عمرفارو ق کے لیے دعا آقا دوجہان نے فرمائی تھی اور سید عمر نے فاروق بن کر حق و باطل کو واضح کر کے دیکھا قول اور فعل دونوں سے راتوں کو گلی محلوں اور علاقوں میں جا جاکر عوام کے حالات کا جائزہ لینے والے اور ا ن کے غم خوار بن گئے ۔
خلیفہ اول سید حضرت ابو بکر صدیق نے اپنی اجرت ایک مزدور کی اجرت کے برابر رکھی یہ تھے وہ عظیم انسان جو انسانوں کی فکر کرتے تھے جب حکمران طبقہ غریب کے کچن کا خیال رکھے گا دو وقت کی روٹی عزت سے ملنے کے انتظامات کرے گا وہ علاقہ خوشحال ہو گا اور تاریخ ان کو سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گی اور جب تک مسلمان حکمرانوں نے اس فارمولا پر عمل کیا عوام کے دلوں پر راج کیا کیونکہ انصاف جب تک ہوتا ہے وہ معاشرہ زوال پذیر نہیں ہوتا اور جب معاشرے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے وہ معاشرہ زوال پذیر ہو جاتاہے بلکہ تاریخ میں وہ حکمران گم ہو جاتاہے ۔
اب ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کرتے ہیں موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے عوام کے حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں مہنگائی کا جن بوتل سے نکل چکا ہے پاکستانی کرنسی بین الاقوامی کرنسی کے مقابلے میں اپنی حیثیت دن بدن کھو رہی ہے اور حکمران طبقہ کرپشن الزمات اور گز شتہ دور حکومت کی نااہلی کا رونا رو رہی ہے دو سال ہو گئے لیکن حکومت عوامی مفادات کے لیے کچھ کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی اس کی وجہ حکمران کا عوامی کچن سے کوسوں دو ر ہونے کا عملی ثبوت ہے کہ حکمران طبقہ کو پتہ ہی نہیں ہے عوام کی قوت خرید کیا ہے دن بدن مہنگائی عوام کے حالات زندگی ابتر سے ابتر کر رہی ہے لیکن ان کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی یہ دوریاں وقتی نہیں ہیں یہ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کیونکہ جو بھی آتاہے وہ عوام کو صرف دعوئوں کی حد تک خواب دکھاتا ہے دودھ او ر شہید کی نہریں اور ملک میں خوشحالی کی بات کرکے ووٹ لے کر منتخب ہوئے لیکن جب مسند پر بیٹھ گئے عوام کو بھول گئے کیونکہ راج نیتی کے چکر کوہی اس طرح انگریزوں نے بنا کر چھوڑ اہے کہ اس سے نکلنا ان کے بس کی با ت نہیں ہے کیونکہ اس سے نکلنے کیلئے سب سے بڑا قدم سودی نظام کیخاتمہ سے ہوگا جو ہمارے حکمران کر ہی نہیں سکتے اس لیے حکمران طبقہ اور غریب عوام کے کچن میں یہ فرق موجود رہے گا اور غریب عوام غلام گردشوں کے چکر میں پھنستے رہیں گے اور قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے اور ذہنی کوفت اور ڈپریشن کا شکار ہوجائیں گے ۔ اس سے نکلنے کے لیے قربانی دینیپڑے گی وہ قربانی عوام دینے کے لیے تیار ہے لیکن حکمران طبقہ اپنی مغربی سوچ کی وجہ سے وہ قربانی نہیں دے سکتااب موجودہ وفاقی حکومت کے پاس ایک زبردست موقع ہے تاریخ میں سنہرے الفاظ میں اپنے آپ کو محفو ظ کرنے کا وہ ہے سودی نظام یعنی آئی ایم ایف ورلڈ بینک سے چھٹکارہ اور اس کے لیے اپنے کچن کو غریب کے کچن کے برابر لاکر کر سکتے ہیں اب دیکھنا ہے کہ حکمران طبقہ سادگی اپنا تا ہے یا صرف دعوئوں پر 5سال گزارتے ہیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔