ملک کو اس وقت بہت سے اندرونی و بیرونی خطرات اور مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا پوری قوم کو متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہئے، ایسے حالات میں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کوئی نیک فال نہیں ہے، ایک طرف اپوزیشن جماعتیں قومی مفاد کا حوالہ دے کر ان مسائل و مشکلات کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے، اس کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے، اسے چلتا کرنے اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے زور لگا رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے اپوزیشن کو دبانے میں مصروف ہے، سیاست کے اس کھیل میں حکومت کی اتحادی جماعتیں اور ناراض ارکان بھی اپنے اپنے مطالبات منوانے اور مراعات سمیٹنے کی فکر میں ہیں، بجٹ منظوری سے قبل وزیراعظم عمران خان نے وفاقی بجٹ کی منظوری یقینی بنانے کے لیے اتوار کی رات پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تاکہ انہیں اعتماد میں لے سکیں، بی این پی مینگل تو پہلے ہی ان سے راہ الگ کر چکی ہے، اس لیے وہ عشائیہ میں شریک نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ق نے بھی کہا کہ بجٹ پر رائے شماری میں ووٹ تو وعدے کے مطابق آپ کو دیں گے مگر آپ کا کھانا نہیں کھائیں گے، باقی اتحادی پارٹیاں وزیراعظم سے اپنے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانیاں حاصل کرکے عشائیہ میں شریک ہو گئیں، وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی تقریر میں اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ اپوزیشن جو مرضی کرے، میرے سوا کوئی چوائس نہیں ہے، اس لئے حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ انہوں نے شرکاء کی جانب سے اپنے اپنے حلقوں کے مسائل اور پٹرول، چینی اور آٹے وغیرہ کی قیمتوں کی طرف توجہ دلانے پر کہا کہ ہمیں مشکل ترین حالات میں مجبوراً سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں،انہوں نے یقین دلایا کہ میں اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلوں گا اور اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں۔ ادھر اپوزیشن پارٹیوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں بجٹ کو مسترد کر دیا ہے، اعلامیہ میں پی ٹی آئی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بجٹ میں حکومت عوام کو ریلیف نہیں دے سکی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے لگتا ہے کہ ہر ماہ منی بجٹ آیا کرے گا، روپے کی قدر 40فیصد کم ہو گئی ہے، برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں، محصولات پہلی بار ہدف سے کم جمع ہوئے، غربت اور بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے، بجٹ میں کرونا کا مسئلہ بالکل نظر انداز کر دیا گیا، تاریخی مہنگائی کے باوجود ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، اپوزیشن کو دبانے کے لیے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے میڈیا کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بلاول بھٹو، خواجہ آصف اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے ایک پریس کانفرنس میں ملکی معاملات چلانے میں ناکامی پر حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اگلے ہفتے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے، حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کا یہ مناسب موقع نہیں ہے، دونوں ریاست کے دو پہیے ہیں جو مل جل کر ہی معاملات کو صحیح سمت میں آگے لے جا سکتے ہیں، ملکی بجٹ پر انہیں زیادہ سنجیدگی دکھانی چاہئے، سیاست ضرور کریں مگر ملک کے اہم ترین مسائل پر افہام و تفہیم کی راہ بھی نکالیں اور انہیں مل جل کر حل کریں، اپوزیشن کو جائز معاملات میں حکومت کا موقف سمجھنا چاہئے اور اس کا ساتھ دینا چاہئے اور حکومت کو بھی ملکی سلامتی معاشی استحکام اور کورونا جیسی وبائوں سے نمٹنے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ اپنے رویے میں نرمی پیدا کر کے اس کی معاونت حاصل کرنا چاہئے، تاریخ میں ایسے کئی مواقع آئے جب حکومتوں نے بدترین مخالفین کو جیلوں سے بھی رہا کیا اور قومی کاز کے لیے ان کی حمایت حاصل کی، حکومت اور اپوزیشن’ دونوں کے ارکان عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں آئے، انہیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے، دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں چالیس وفاقی وزارتوں اور محکموں کے سرکاری فنڈز میں 270ارب روپے کی خطیر رقم کی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کا سامنے آنا، کرپشن کے خاتمے ہی کو اپنا بنیادی مینڈیٹ قرار دینے والی حکومت کے لیے یقینی طور پر ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق 270ارب روپے کی مجموعی رقم میں سے 12ارب روپے کی کھلی بدعنوانی پکڑی گئی جبکہ 258ارب روپے کے خرچ میں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں پائی گئی ہیں۔ رپورٹ کی رُو سے وفاقی محکموں میں 79ارب 59کروڑ روپے کی ریکوری کے کیس، 8ارب 89کروڑ روپے مالیت کے کمزور داخلی کنٹرول کے معاملات اور 152ارب 20کروڑ روپے کے کمزور مالیاتی نظم و نسق کے امور سامنے آئے ہیں جبکہ آڈیٹر جنرل کے مطابق سرکاری اداروں نے 17ارب 96کروڑ روپے کی کثیر رقم کا ریکارڈ ان کے حوالے نہیں کیا۔ اس صورتحال کی بنا پر انہوں نے بالکل درست طور پر مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر سرکاری اداروں کو اخراجات کرنے سے روکا جائے اور کسی بھی ادارے کو سپلیمنٹری گرانٹس جاری نہ کی جائیں۔ رپورٹ میں سرکاری رقوم میں خورد برد اور مالی بے قاعدگیوں کے ذمہ دار حکام کے خلاف تحقیقاتی اداروں کو ریفرنس بھیجے جانے سمیت سخت اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کرکے منتخب عوامی نمائندوں کو اس پر کسی روک ٹوک کے بغیر اظہارِ خیال کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ فی الحقیقت سرکاری اداروں میں کرپشن کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے مالی معاملات پر پارلیمنٹ کی نگرانی ہی سب سے موثر طریقہ ہے جو دنیا کے تمام جمہوری ملکوں میں رائج ہے، آڈیٹر جنرل نے بھی اس کی سفارش کی ہے لہٰذا کسی لیت و لعل کے بغیر اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے،سات عشروں سے زیادہ عرصے پر مشتمل کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کچلنے کے لیے بھارت نے ان پر جو بہیمانہ مظالم روا رکھے ہوئے ہیں،
251