311

دفاعی بجٹ۔ دوسرا رخ – شمس مومند

اگرچہ سالانہ ملکی بجٹ ایک پبلک ڈاکومنٹس ہوتا ہے جس پر مجھ سمیت ہر پاکستانی شہری کو بات کرنے اسکی حمایت یا مخالفت کرنے کا اختیار ہوتاہے بجٹ کے حوالے سے سب کی رائے کا ایک ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری تاریخ میں ہر حکومت نے اپنے پیش کئے گئے بجٹ کو بہترین قرار دیا ہے خواہ وہ موجودہ بجٹ کی طرح 3437 ارب روپے خسارے کا بجٹ ہی کیوں نہ ہو جب کہ اپوزیشن نے ہمیشہ بجٹ کو الفاظ کا ہیر پھیر اور اعداد و شمار کا گورک دھندہ قراردیا ہے خواہ اس دور میں ملکی ترقی کی شرح 5.6 ہی کیوں نہ ہو۔ اس بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں بیس فیصد ہی کیوں نہ بڑھائی گئی ہو اور اس میں موٹرویز ہائی ویز ائیرپورٹس یونیورسٹیوں سمیت درجنوں بڑے بڑے پراجیکٹ ہی کیوں شامل نہ ہو مگر خوش قسمتی سے ہم نہ حکومت کا حصہ ہے نہ اپوزیشن کا۔ اس لئے موجودہ بجٹ 2020-21 پر اپنی آزادانہ رائے دینے کا اختیار نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اس بجٹ میں دفاع اور تعلیم کے لئے مختص رقوم کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کی بابت کچھ حقائق بھی بیان کرناچاہتے ہیں۔اولاً یہ کہ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور صوبائی خود مختاری کے بعد پرائمری اور سیکنڈری تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہے اور کل ملکی محاصل کے ستاون فیصد صوبوں میں تقسیم ہونے کے بعد اس بات کی کوئی تک بھی نہیں بنتی ہے کہ وفاق باقی ماندہ 47 فیصد میں سے بھی صوبوں کے لئے سکول ہسپتال اور گلی کوچوں پر خرچ کرے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کی دو بڑی ذمہ داریاں ملکی دفاع او ر ملکی و غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ہی رہ گئی ہے۔ پی آئی اے ریلوے اور سٹیل مل سمیت چند سفید ہاتھی اس کے علاوہ ہیں۔ بجٹ 2020-21 میں ان قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کے لئے 2946 یعنی تقریباً تین ہزرار ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ دفاع کے لئے مجوزہ بجٹ کی مقدار 1289 ارب ہے۔ ان دونوں ادائیگیوں کے علاوہ سال بھر میں تقریبا ً1411 ارب روپے کا قرضہ بھی واپس کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض لوگ عوام اور فوج کے درمیان نفرت اور غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ حکومت نے سالانہ بجٹ میں دفاع کے لئے 1289ارب جبکہ تعلیم کے لئے صرف چار ارب روپے رکھے ہیں جو بالکل غلط اعداد و شمار ہیں۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے لئے 64 ارب روپے رکھے ہیں۔ سائنسی تحقیق و ترقی کے لئے تقریبا 30ارب الگ ہیں جو اعلی تعلیم ہی کا حصہ ہے اس طرح اعلیٰ تعلیم کے لئے تقریبا ًنوے ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اگر کوئی دفاع اور تعلیم پر پورے ملکی خرچے کا موازنہ کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے انتظار کرنا چاہے جب چاروں صوبے بجٹ پیش کرے تو وفاق سمیت چاروں صوبوں کی تعلیم کے لئے مختص رقوم کو جمع کیا جائے۔ اور اس کا موازنہ پھر دفاعی بجٹ سے کیا جائے۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی بعض پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کے باوجود ایک ریاستی اور آئینی ادارے کے طور پر اس کا استحکام ملک وقوم کی بقاء اور آزادی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور جو لوگ ( خواہ وہ فوج کے اندر ہو یا اس کے باہر) اس کو دانستہ یا نادانستہ طور پر عوام سے لڑانا چاہتے ہیں وہ ملک وقوم کے دشمن ہیں خیر خواہ نہیں۔ اس لئے سوشل میڈیا یوزرز کو ہر جھوٹی خبر کو پھیلانے کی بجائے حقائق کو تلاش کرکے پھیلا نا چاہیے۔یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر ملک کی معاشی صورتحال دگر گوں ہے اور جدید دور میں جنگیں معیشت تعلیم، میڈیا اور ثقافت کے ذریعے لڑی جاتی ہے فوج کے ذریعے نہیں تو پھر اتنی بڑی فوج پر تیرہ سو ارب کے اخراجات کیوں؟ میری نظر میں یہ ایک نہایت سنجیدہ سوال ہے مگر یہ سوال اور اس پر بحث عوام کی بجائے خواص یعنی دانشوروں سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمینٹیرین کا کام ہے کہ وہ سوچے، ڈائیلاگ کرے اور فیصلے کرے کہ کم سے کم خرچ میں ملکی جغرافیائی، نظریاتی ، ثقافتی اور معاشی دفاع کو کس طرح ناقابل تسخیر بنایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ فوج کاکام صرف جغرافیائی دفاع ہوتا ہے۔ اس کا معاشی دفاع اس کے حکمرانوں اور کاروباری لوگوں کا کام ہے۔
ملک کی ثقافت ادب اور تاریخ کا دفاع اس کے ہنر مندوں اور دانشوروں کا کام ہے جبکہ نظریاتی دفاع کے لئے محب وطن سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کو ہمہ وقت چوکس رہنا ہوتا ہے۔ یہاں پر چوٹی منہ بڑی بات ، کہ فوج کو بھی یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی فوج ملک کی حفاظت اپنے عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر نہیں کر سکتی ہے اور فوج اور عوام کے درمیان دوری اور اعتماد کی کمی ملکی دفاع کے لئے تباہ کن ہوگی۔
اس لئے موجودہ بجٹ کو ایک طرف رکھ کر کھلے دل کیساتھ ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کیجئے جو فوج اور عوام کے درمیان دوری پیدا کرنے اور اعتماد میں کمی لانے کا ذریعہ بن رہے ہیں اور پھر فراخدلی اور خلوص کیساتھ ان وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کیجئے اور یاد رکھئے آٹے میں نمک کے برابر ملک دشمن فوج کے اندر بھی ہوسکتے ہیں اور عوام میں بھی ۔ اس لئے گزارش ہے کہ عوام کو Bloody Civilian غدار اور For Sale جیسے القابات سے نوازنے کا سلسلہ فی الفور روکا جائے۔ ملکی سیاستدانوں دانشوروں ہنرمندوں اور سینئر صحافیوں کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھا جائے اور سب سے بڑھ کر عوام میں پروان چڑھنے والی اس سوچ کا خاتمہ اپنے کردار سے کیجئے کہ ہماری فوج بادشاہ نہیں مگر بادشاہ گر ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے اس آزاد ملک کو خودمختار بنانے میں کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمایئے۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں