437

دوہری شخصیت یا منافقت – رعنا اختر

ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت جس سے نظریں چرانا ممکن نہیں ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہم میں دوہری شخصیت سرائیت اس قدر کر چکی ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ہم میں سے ہر شخص دوہری زندگی گزار رہا ہے یہ بیماری ہمارے معاشرے میں باقاعدہ ایک آرٹ کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں دوہری زندگی گزارنا اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس پہ شرمندہ ہونے کی بجائے ہم فخر محسوس کرتے ہیں ۔ لوگ ظاہر میں کچھ ہیں باطن میں کچھ ۔ اپنا باطن خود سے بھی چھپائے ہوئے ہیں ۔ اسلام دین فطرت ہے اس نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو مکمل طور پر کھول کہ بیان کیا ہے ۔ اسلام انسانی زندگی کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ۔ اسلام نظام فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ امن و بھائی چارے کا دین ہے ۔ سچائی کا دین ہے عدل و انصاف کا دین ہے ۔ جہاں یہ ہمیں عملی زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا وہاں منافقت کی ممانعت بھی کرتا ہے ۔ لیکن ہم میں اکثر یہ سب جانتے ہوئے خود کو اسلام کے طریقہ سے اپنی زندگی کو ڈھالنے کے روادار نہیں ہیں ۔ ہماری زندگیاں اتنی مختلف ہو چکی ہیں جتنا سچ جھوٹ سے ۔ ہم حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے خود کو شعوری طور پہ اس ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں جو کہ حقیقت کے متنازع ہے ۔ اس حوالے سے ہمارے ارد گرد بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔آپ سب سے پہلے سوشل میڈیا پہ نظر دوڑائیں ۔ وہاں ہر کوئی متقی ،پرہیزگار ، محبت کرنے والا ، معاشرے کے اصولوں پہ عمل کرنے والا بااخلاق اور ملنسار ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں دن رات جتا ہوا ہے جب کے حقیقت میں یہ تمام خوبیاں ان میں پائی نہیں جاتی ۔دوسری مثال آپ اپنے معاشرے میں موجود ایسے بندوں کو لے لے جو دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی ، ہمہ وقت مدد کرنے والا امیج پیش کرتا ہے جبکہ حقیقی زندگی میںان کے گھر وںکی طرف نظر ڈالے ۔



گھروں میں یہ لوگ ایسی تمام تر خوبیوں سے بے باک نظر آتے ہیں ۔ ہر وقت ان کے گھر کے افراد خوف و ہراس میں مبتلا رہتے ہیں کہ کب ان کا دماغ پھر جائے اور یہ بدتمیزی کی انتہا کر دیں ۔ سارے بھرم اور لحاظ یہ ایک طرف کر کے رکھ دیتے ہیں گھر کے افراد انہیں صرف اس لیے نہیں بلاتے کہ کہیں ان کے سر پارہ ہائی نہ ہو جائے اور رہی سہی ساکھ بھی متاثر ہو ۔ ایسے لوگوں کو گھر کے بڑے سے لیکر چھوٹے تک نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے آنے سے سبھی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں نہ ایسے لوگوں کی اہمیت ہوتی نہ اپنوں کے بیچ قدر ۔ لیکن ایسے لوگوں کی منافقانہ چالیں تب دیکھنے میں آتی ہیں جب ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد یا دوست احباب کا سامنا ہوتا ہے تب ان کے چہرے سے وہ مکاری کہیں غائب ہو جاتی ہے ۔ ان کے ساتھ اس طرح خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں کہ جیسے ان سے بہتر بااخلاق انسان کہیں نہیں ۔ان کہ سامنے ایسے میاں مٹھو بنتے ہیں کہ ابھی ان کو سر آنکھوں پہ بٹھا لے گئے لیکن اس کے برعکس انکا حال اپنے گھروں میں اپنوں سے بات کرنا تو دور ان کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے بات بات پہ جھگڑتے ہیں گھر کا ماحول وحشت زدہ کر دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہم اعلیٰ و ارفع لوگوں کی مثال لے لیتے ہیں جن کو لگتا ہے صرف یہی لوگ غریبوں کا سہارا ہے ان کے علاہ ان کا کوئی بھی خیر خواہ نہیں ہے ۔



ہمارے معاشرے کی ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جس میں ایک چپڑاسی سے لیکر ایوان بالا کے ممبر تک شاملِ حال ہے ۔ آپ اپنے معاشرے کے لوگوں کا موازنہ دوسرے ملکوں کے معاشرے کے لوگوں سے کر کے دیکھ لیں وہ لوگ وہی ہیں جو ظاہر کرتے ہیں لیکن ہم جو ظاہر کرتے وہ نہیں ہے آخر کیوں ؟ کیوں اس مصنوعی شان و شوکت کو لئے پھرتے ہیں کیوں نہیں ہم اپنی حقیقت کو ظاہر کر سکتے ۔ اس دوہرے روپ کی وجہ سے ہمارے اپنے خونی رشتے ہم سے دور ہوتے جا رہی ہیں انہی رشتوں کو انا کی بھینٹ چڑھاتے جارہی ہیں ۔ اس مصنوعی خول سے ہم نے نجانے کتنے اپنوں کے دل توڑ دئیے آخر کیوں ؟ہم اپنے اصلی روپ کو ظاہر نہیں کرتے ۔کیوں ہم دو دو چہروں کے ساتھ جی رہے ہیں اور کب تک جئیںگے ۔ کیوں ہم اس پہ ڈٹ گئے ہیں کیونکہ ہم اپنی اصلیت کو دیکھ نہیں سکتے اگر ہم چاہے تو ہم اس سے نکل سکتے ہیں مگر ہم چاہتے ہی نہیں ۔ ہم اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال چکے ہیں حدیث میں ہے ” تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے “حقوق العباد کی معافی نہیں ہے اور اپنوں کا حق ہم پہ غیروں کی نسبت زیادہ ہے ۔ جہاں ہم اچھے ہونے کا دعویٰ باہر کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں وہی رویہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی اپنا لیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے ۔گھر کا ماحول پر سکون ہونے کے ساتھ ساتھ اپنوں میں خود اعتمادی بڑھتی ہے ۔ ہمیں خرگوش کی کھال میں چھپنے کی بجائے اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کا سہارا بننا چاہیے ۔ ہمیں سچائی کا دامن تھام لینا چاہیے اسلام کا پرچار کرے ۔ اس منافقت سے نکلیں اور حقیقت کو اپنائیں ۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں