788

روحِ اُمم کی حیات – حافظ ایُّوب قاسمی

روزِ آفرینش سے ادوار میں تغیر پذیری کائنات کی عالمگیر سچائی ہے۔ہر دور کا اپنا ایک تقاضا ہوتا ہے اور دور کے تغیرکے مطابق ہر نیا تقاضا اللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی کا مظہر ہوتا ہے۔گزشتہ قوموں کی تاریخ کا اجتماعی نقطۂ نظر سے عمیق مطالعہ کیا جائے تو عروج و زوال کے اُصولوں میں سے ایک اُصول زمانے کے تقاضوں کا بروقت ادراک اور اس کے مطابق حکمتِ عملی طے کرنا ہے۔ زمانہ جس انقلاب کا متقاضی ہوتا ہے،اقوام کی ترقی اسی انقلاب کی منصوبہ بندی ہی میں مُضمر ہوتی ہے۔پس انقلاب اقوام کی اجتماعی زندگی کا جزو لاینفک ہوتا ہے۔انقلاب تخریبی یاخون ریز عمل کا نام نہیں جیسا کہ ایک عمومی تأثر پایا جاتا ہے کہ انقلاب میںمعاشرے کی ہر چیزنیست و نابودکرنا اور خون کی ندیاں بہانا ایک ناگزیر عمل ہے۔لیکن ایسا ہر گز نہیں بلکہ انقلاب ایک تعمیری عمل ہے جس میں جو اقدار و اطوار انسانیت، دین، دستور، ریاست اور ملک کے لیے مفید ہوتے ہیں انہی کوبدستور قائم رکھا جاتا ہے اور جن جبری اُصولوں، فاسدتمدن اور غیر صالح نظام نے انسانی ترقی کا راستہ مسدود کیا ہوتا ہے،اس کو ختم کرکے ایک عادلانہ نظام اور صالح تمدن قائم کیا جاتا ہے۔مختصر الفاظ میں انقلاب سماج کی شعوری اور مثبت تبدیلی کا احسن اقدام ہے۔


انقلاب کے لیے”کیوں اور کیسے”کے سولات کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔یہ نبویۖطریقِ کار ہے۔نبی کریمۖ نے دار ارقم میں اپنی محدود جماعت کو ابوجہل ،ابولہب،قیصر وکسریٰ کے ظالمانہ نظاموں اور فاسد تمدن کی خرابیوںاور اس کے متبادل دینِ فطرت کے محاسن کا شعور دیا۔صحابہ کی جماعت نے اسی انقلابی نظریے پر شرحِ صدر حاصل کیااور پھراِسی نظریے پر کوہِ استقامت بنے رہے۔گویا انقلاب شعوروآگہی سے عاری جذباتیت کے کھوکھلے نعروں کا نام ہرگز نہیں بلکہ صدقِ دل اور عقل و شعور سے کسی انسانیت کی مادی و روحانی ترقی کے دینی،دستوری اور قومی لائحۂ عمل کو قبول کرنے کا نام ہے۔صالح تبدیلی کا عملReady-Made نہیںجو طشت میں پیش کیا جائے۔صالح تبدیلی کسی جبری عمل کا نتیجہ بھی نہیں بلکہ ایک منظم مِکَنیزم اور عملِ پیہم کا نتیجہ ہوتا ہے۔اس شعوری معاشرتی تبدیلی کی رفتار ہمیشہ طبعی ہوتی ہے۔سماجی تبدیلی کے سَوتے انسان کے اندر سے ہی پھوٹتے ہیں۔ گویا انقلاب کی پہلی تخم ریزی انسان کے دل ہی میں ہوتی ہے اس لیے قرآنِ کریم سب سے پہلے فرد کو اپنی ذات میں صدقِ دل سے تبدیلی کی پیش قدمی کا داعی ہے۔ذات کے بعد گردوپیش میں عزیزواقارب اور دوست احباب میںصالح تبدیلی کی دعوتِ فکرو عمل دی جاتی ہے۔تبدیلی کا یہ عمل ذات سے شروع ہو کر خاندان اورشہروں سے ہوتا ہوا قوم کی تقد یر بدل لیتی ہے۔لیکن یاد رہے ! کہ جب تک کوئی قوم تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ ہو،حقیقی اور مثبت تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعونی خدائی سے نجات دلائی لیکن حقیقی آزادی کے لیے دشتِ سینا میں چالیس سال تک انتظار کرنا پڑا۔قرآن کریم کی آیت بھی اس پر مُہرِ ثبت ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو اُس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک کوئی قوم خود تبدیلی پر آمادہ نہ ہو۔مولاناظفر عالی خان اسی بات کو منظوم الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔
خدا نے آج تک اُس قَوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


کسی ملک کے حقیقی باسی اور محبِ وطن شہری وہ افراد ہوتے ہیں جو ملک کی اجتماعی بد حالی کو اجتماعی خوش حالی میں تبدیل کرنے کے لیے متفکر ہوں۔ہمارا قومی،آئینی اور دینی تقاضا ہے کہ ہم وطنِ عزیز پاکستان کی اجتماعی حالت پر سوچیں کہ کس مقصد کے لیے بے دریغ قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا ؟کیا آج ہماری اجتماعی حالت ایک اسلامی اور جمہوری مقصد کے مطابق ہے؟جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح اعمال نتائج سے پہچانے جاتے ہیں۔سود کی معیشت،گروہی مفادات کی سیاست،نفسا نفسی کی معاشرت، ناجائز منافع خوری کی تجارت اور دجل وفریب پر مبنی معاملت اندازِ مسلمانی نہیں۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم مقصد کو پسِ پُشت ڈال چکے ہیں اور ملک ترقی کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہے۔لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہم حالات بدلنے پر قادر ہیں۔ملک کی مجموعی آبادی کا 52 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ہمارے نوجوان اپنی دھرتی سے مخلص ہیں۔نوجوانوں کاحقیقی مسائل اور ان کے محرکات کا درست ادراک،ان مسائل کے بہترین ممکنہ حل اور اس حل میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنے سے شعوری اور حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔وطنِ عزیز پاکستان کے اہلِ علم و دانش کا دینی اور قومی فریضہ بنتا ہے کہ وطنِ عزیز کو حقیقی معنوں میںایک اسلامی اور جمہوری ملک بنائیں۔حضرت شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں دورِ زوال میں حقیقی عادلانہ نظام کے قیام کی شعوری اور مخلص کوشش افضل نیکی ہے۔جب کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کے الفاظ میں دینِ اسلام کے سیاسی غلبے سے کنارے کشی اختیار کرکے محض حجروں میں وعظوں کو دینی شان و شوکت کے لیے کافی سمجھنا ،اسلام کے پاک صاف دامن کو داغ دار بناناہے۔ہمیں بحیثیتِ قوم اپنے سیاسی،معاشرتی،اقتصادی افکار و اعمال کا محاسبہ کرنا ہوگا۔اجتماعی افکارو نظریات کی جانچ پرتال یہ حقیقت آشکار کرتی ہے کہ حقیقی شعوری سماجی تبدیلی وقت کی پکار ہے۔زمانے کے اس اجتماعی تقاضے پر لبیک کہنا قوم کی حیات ہے اور اس سے چشم پوشی قومی اجتماعی زندگی کی مَوت ہے۔علّامہ محمد اقبال نے اسی حقیقت کا اظہار درجِ ذیل الفاظ میں کیا ہے:
جس میں نہ ہو انقلاب مَوت ہے وہ زندگی
روحِ اُمَم کی حیات، کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دست ِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں