زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹی پیدا کرنے والی عورت اور بیٹی کو زندہ قبر میں اتار دیتے تھے کسی قسم کے جذبات کو آڑے نہ آنے دیتے لوگ اتنی جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے بس جونہی پتا چلتا کہ پیدا ہونے والی لڑکی ہے باپ اٹھاتا اور اس عورت اور بیٹی کو دفن کرنے چل پڑتا ۔اسلام کی آمد ہوئی جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے لوگوں کو قرآن تھما دیا گیا شعور کی ابتدا اور علم کی بنیاد رکھی گئی اسلام نے کفر کے جالے اتار کہ پھینک دئیے جہاں ہر طرف روشنی کی فضا چھائی وہاں بیٹی کو مقام و مرتبہ بھی ملا اللہ نے بیٹی اور عورت کا مقام بلند کر دیا یہاں تک کہ قرآن کریم میں بیٹی کی اچھی پرورش کرنے کی تلقین کی اور جو لوگ اس فریضے کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے سر انجام دیں گا اللہ انہیں بیٹیوں کو جہنم اور اس انسان کہ درمیاں آڑ بنا دے گا اوربیٹی کی اچھی پرورش کرنے والے کو جنت کی خوشخبری سنا دی گئی ۔ بیٹی جہاں ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی ۔ بیٹی ہے تو رحمت قرار دے دی گئی ۔ بہن ہے تو سلامتی کی دعائیں کرنے والی بنا دی گئی ۔بیٹی کی اہمیت کے ہر پہلو کو اجاگر کر دیا گیا اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے مرد اور عورت کے حقوق برابر کر دئیے ۔لیکن اب معاشرے میں جہاں اسلام کا دور دورہ ہے لیکن پھر بھی لوگ جہالت کی پٹی کو اپنے آنکھوں پہ لپیٹے اسلامی تعلیمات پس پشت ڈال چکے ہیں اسلام کے ہوتے ہوئے بھی کچھ لوگ ابھی بھی زمانہ جہالت کے رواجوں پہ عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بیٹوں کو بیٹیوں پہ ترجیح دیتے ہیں ۔
بیٹوں کی اچھی پرورش اور جائیداد میں بہترین حصہ اور بیٹیوں کوروندھا جاتا ہے صرف بیٹی ہونے کی وجہ سے بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے والے والدین میراث سے محروم کر دیتے ہیں اگر بھول کہ بیٹی جائیداد میں حصہ لینے کی بات بھی کر دے تو قطع تعلق مرنے جینے ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے جبکہ اسلام میں بیٹیوں کا بھی جائیداد میں حصہ متعین کیا گیا ہے لیکن لوگ اسلامی احکام پہ عمل کرتے ہوئے نظر نہیں آتے بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیتے ۔اگر بیٹی اس کا مطالبہ کرے بھائی ساری زندگی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کچھ تو یوں کر جاتے ہیں باپ کے جیتے جی بیٹیوں،بہنوں کو جائیداد سے عاق کر دیتے ہیں صرف اس لیے کہ پرائی گھر کی ہے اور پرائے گھر ہی جائے گی اوربیٹی کے ساتھ جائیداد بھی ۔اگر لڑکی ایک اکلوتی اولاد ہے اپنے گھر والوں کی تو پھر صرف اس کی جائیداد کو تقسیم سے بچانے کے لیے اسے ساری زندگی گھر میں کنواری رکھ چھوڑتے ہیں اور آس پاس والے بن بیٹھتے ہیں جائیداد پہ سانپ ۔ایسا صرف اس لیے کہ لوگ دنیاوی مال کی حسرت میں رہتے ہیں اپنی آسائشوں کو کھونے سے ڈرتے ہیں چاہے اپنی آخرت تباہ ہی کیوں نہ کر لیں ۔ یہ پیٹ تو ایسی دوزخ ہے کہ بھرتی ہی نہیں ۔ایک صاحب جائیداد سے پوچھا گیا کہ بہن کو جائیداد میں حصہ دیا ہے کہ نہیں ؟ جواب کیا ملتا ہے نہیں ہماری بہن نے اپنا حصہ نہیں لیا اس نے مجھے پہلے اپنا حصہ دے دیا تھا ہماری بہن کو سمجھ بوجھ ہے ویسے بھی خاندانی روایت کہ خلاف کیسے جاتی وہ اسے پتا ہے اگر وہ ایسا کرتی ہے تو ساری زندگی اس کے لیے اس گھر کے دروازے بند کر دئیے جاتے ۔عورت اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائے تو اٹھائے کیسے کبھی غیرت کے نام پہ قتل ہے تو کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے قتل کبھی جائیداد میں حصہ لینے کی خواہش میں قتل ہوتی ہے ۔ بیٹی کو پیسوں کے لالچ میں کم عمری میں بوڑھے سیٹھ کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے اور کبھی چار بچوں کے باپ کے ساتھ زبردستی رخصت کر دیا جاتا ہے ۔ اگر وہ من پسند کی شادی کرتی ہے توگھر سے عاق مرنا جینا ختم ،گھر والوں سے دوری اختیار کرتی ہے اور پھر چند دن کی جھوٹی محبت کے سہارے جیتی ہے آگے طلاق کے خوف سے زلیل و خوار ہوتی رہتی ہے کیا بنیں گا اس معاشرے کے لوگوں کا جو طاقت کے نشے میں چور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ہم بے شعور لوگ جو صرف بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق پہ ڈھاکے ڈالنے کے لیے بیٹھے ہیں ۔ غیرت کی آڑ میں آ کے بیٹیوں کو ذلیل و رسوا کرتے رہتے ہیں ۔ہر ایک کی باز پرس ہو گی کیوں ناں اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے محنت کی جائے ۔ کیوں نہ زمانہ جاہلیت کی روایات کو ترک کر کے اسلام زندگی کا نظام اپنے معاشرے میں نافذ کیا جائے ۔بیٹیوں کو بیٹیاں سمجھنے سے پہلے انسان سمجھ لیں ایک جیتا جاگتا انسان یہ بھی دل رکھتیں ہیں ان کو بھی درد ہوتا ہے ۔ ان کو تمہاری طرف سے جائیداد پیسے یہ سب نہیں چاہیے صرف عزت کی نگاہ چاہیے ۔اس جہالت کو ختم کرنے کے لیے گھروں میں اسلامی تعلیمات کو پرموٹ کیا جائے ۔بچوں کی پرورش خاص طور پہ بیٹوں کو سرے سے ہی یہ بات سمجھائی جائے ان کہ دلوں میں عورت ذات ،بہن ،بیٹی اور ماں کا احترام پیدا کیا جائے ۔ اپنی بہن سے چاہے وہ چھوٹی ہے یا بڑی عزت سے بات کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے ۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ عورت کے موضوعات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے ۔ بیٹی کو حق رائے دہی کی اجازت دی جائے گھر کا ماحول اس طرح کا بنایا جائے کہ ہر بیٹی کو اپنی ماں ،باپ یا بھائی سے اپنی باتوں کی شیئرنگ کرنے میں دقت نہ ہو ۔کبھی کوئی بیٹی یہ نہ کہے کہ ۔” میں بیٹی بچ گئی تو زندہ دفن ”
517