339

شامی فورسز کی داعش سے جھڑپیں، 80سے زائد افراد ہلاک

آئین نیوز: شام کے وسطی صوبے حمص میں صدربشارالاسد کی سرکاری فورسز اور داعش کے درمیان شدید جھڑپوں میں 80 سے زائد افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق شام میں کام کرنے والی برطانوی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ شامی فوج سمیت اتحادی افواج اور داعش کے جنگجووں کے درمیان السخنہ کے علاقے میں گزشتہ دو روز سے شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لڑائی کے دوران کم ازکم 80 افراد مارے گئے جن میں 30 دہشت گرد اور 18 حکومتی فورسز کے جوان شامل ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب داعش کی جانب سے سخنہ کے مختلف مقامات میں حکومتی تنصیبات پر منظم حملے کیے گئے۔

شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی میں اب تک تین لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔شام خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں حکومتوں کے خلاف شروع ہونیوالے عرب بہار کا کے تحت ہونے والے احتجاج کے دوران ہوا تھا۔شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے ساتھ سخت رویہ اپنایا گیا تھا اور شدید کارروائیاں کی گئی تھیں

بشارالاسد کے اتحادی روس اور ایران 2015 سے ہی شام میں موجود ہیں اور داعش کے خلاف ان کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔ روس کے طیارے داعش کے ان ٹھکانوں پر بمباری کررہے جو شام کی حدود میں ہیں۔فضائی کارروائی سے شامی فورسز کو داعش کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی اور متعدد علاقوں میں شکست دے دی۔

شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے رواں برس مارچ میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ شام میں گزشتہ 9 برس کے دوران ایک لاکھ 16 ہزار شہریوں سمیت 3 لاکھ 84 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2011 میں شروع ہونی والی جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا تھا کہ اس جنگ میں 22 ہزار بچے اور 13 ہزار خواتین بھی جاں بحق ہوئیں۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کم از کم 57 ہزار باغی جبکہ اسی طرح کردوں کی زیر قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز کے 13 ہزار 624 جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔داعش کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ان کے حامی ہلاک جنگجوں کی تعداد 67 ہزار 296 ہے،

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے 2017 میں اعلان کیا تھا کہ یہ تنازع ‘دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانوں کے لیے بدترین تباہی ہے’۔واضح رہے کہ شام شام کے مغربی علاقوں میں داعش کا اثر برقرار ہے حالانکہ مرکزی علاقوں سے گزشتہ برس ہاتھ دھونا پڑا تھا جبکہ وہ ان علاقوں سے حکومتی فورسز پر مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں