کیکڑہ ایک چھوٹا سا پانی کا جانور ہے، اس کے متعلق مشہور ہے کہ جب اس کو کسی طرح کنارے پر جا پڑتا ہے تو پھر پانی میں جانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ یہ انتظار کرتا رہتا ہے کہ خود پانی آگے بڑھے اور اسے بہا کر لے جائے اور اگر پانی کی لہریں اسے واپس نہیں لے جا ئیں تو وہیں پڑے پڑے جان دے دیتا ہے یا پکڑا جاتا ہے حالانکہ ذرا سی کوشش بھی اسے پانی میں لے جانے کو کافی ہوتی ہے جو اکثر صرف گزبھر کے فاصلے پر اسے پناہ دینے کے لئے موجیں مارتا ہوتا ہے۔یہ ساری دنیا بھی انسانی کیکڑوں سے بھری پڑی ہے۔ ہزاروں ایسے انسان موجود ہیں جنھیں اتفاقات نے جہاں ڈال دیا وہیں پڑے ہیں،حالانکہ ترقی اورکامیابی کا سمندر ان کے ایک قدم اٹھانے کا منتظر ہوتا ہے۔ہم میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو اسی انتظارمیں پوری زندگی برباد کردیتے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ آکر ان کے لئے کچھ کردے حالانکہ حقیقتاًکسی اور شخص سے ذیادہ وہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں لیکن ان میں عمل کا جذبہ نہیں ہوتا اسلئے خود قدم اٹھانے اور رسک لینے سے گھبراتے ہیں۔یاد رکھئے آسمان سے فرشتے آپ کی مدد کے لیئے نہیں اتریں گے۔آپ کو اپنے لئے خود ہی محنت کرنی پڑے گی ورنہ آپ پھر اس کیکڑے کی طرح پڑے پڑے جان دے دوگے۔ کسی انسان کی زندگی میں سب سے ذیادہ اہم چیز عمل کا جذبہ ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہوجائے تو اس کے اندر کی تمام سوئی ہوئی قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ وہ ذیادہ بہتر سوچتا ہے، پائیدار منصوبہ بندی کرتا ہے اور ذیادہ محنت کے ساتھ اپنے کام کی تکمیل میں لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جس آدمی کے اندر عمل کا جذبہ نہ ابھرے وہ اس طرح سست پڑ ا رہتا ہے جیسے کوئی مشین غیر متحرک حالت میں خاموش پڑی ہوئی ہو۔ اور تجربہ بھی بتاتا ہے کہ اطمینان اور آسودگی کے حالات میںعام طور پر آدمی کی صلاحیتوں کو سلاتے ہیں اور بیداری کو مفقودکرتے ہیں۔اس کے برعکس جب آدمی کی زندگی مشکلات اور رکائوٹوں سے دو چار ہوتو اس کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو جھٹکا لگتا ہے۔اس کی صلاحیتیں اس طرح جاگ اٹھتی ہیں جیسے کوئی بے خبر سورہاہو اور اس کے اوپر ایک پتھر گر پڑے۔اصل میں کسی فرد کا کامیاب یا ناکام ہونا،اس کے سوچ کے انداز پر منحصرہے اگر وہ کوئی کام شروع کرنے سے قبل ہی اسے ناممکن تصور کرلے،تو پھر اس کے لئے ممکن کام بھی ہمیشہ ناممکن ہی رہتا ہے۔ یہ بات گرہ سے باندھ لیں کہ کسی بھی فرد کی زندگی میں سب سے اہم عمل کا جذبہ ہے۔ اگر کسی فرد کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر اس کیلئے کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔
نیولین کا کہنا تھا، ہمیں دنیا فتح کرنے سے قبل خود کو فتح کرنا ہوتا ہے اور خود کو فتح کرنے کے لیے پہلے اندر موجود خوف سے نمٹناپڑتا ہے کیونکہ اگر ہم اپنے اندر پایا جانے والا خوف ختم نہ کریں،تو یہ خوف ہمیں ختم کردیتا ہے۔رابرٹ کو لیر کہتے ہیں کہ ایک بار ناکامی نے کامیابی سے کہا، بھلا کسی فرد کی قطرہ قطرہ کو ششیں کیا رنگ لائیں گی؟ کامیابی نے برجستہ جواب دیا، قطر ہ قطرہ ملے تو ہی دریا بنتا ہے۔ سو جب کسی فرد کے دل میں کام کا شوق وجذبہ ہوتو عقل کے دروازے آپ ہی آپ کھل جاتے ہیں، قوت عمل مضبوط ہوتی ہے اور راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصر ولیم دوم ایک سرکاری دورہ پر سوئٹزر لینڈ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹزر لینڈ اگر چہ ایک چھوٹا ساملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے۔ اس نے ملاقات کے دوران سو ئٹزر لینڈ کے ایک فوجی دستے سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہو، اگر تمہارے ملک پر حملہ کردے تو تم کیا کرو گے۔ اعلیٰ تربیت یا فتہ فوجی نے بڑی سنجیدہ گی سے جواب دیا سر! ہمیں بس ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے۔
سو ئس فوجی کے اس مختصر جملے میں بڑی حقیقت پنہاں ہے کہ وسائل اگرکم ہوں تو کارکردگی کی ذیادتی اور عمل کے جذبے سے آپ اس کی تلافی کرسکتے ہیں۔یادر رکھئے نواجونوں! زندگی کی جدوجہد میں کبھی کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور کوئی پیچھے ہوجاتا ہے، کوئی غالب اور کوئی مغلوب۔ مگر اس دنیا کے امکانات اتنے ذیادہ ہیں کہ کبھی کسی کیلئے حد نہیں آتی۔ یہاں ہر بچھڑے ہوئے کیلئے دوبارہ آگے بڑھنے کا امکان ہے۔ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی ذیادہ بڑی مقداد میں عمل کرنے کیلئے تیار جائے۔
412