بدقسمتی سے ابھی تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے یا نہیں کرنا چاہتے کہ ملک کے نظام میں خرابی کب پیدا ہوئی ہے اور کس طرح ماضی قریب میں صرف مترقی جمہوری اور قوم پرست خیالات رکھنے والوں کا متفقہ موقف رہاہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد برطانوی دور کے مراعات یافتہ طبقہ نے اس ملک میں جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دیا۔جس کی وجہ سے ابھی تک اس ملک کا نظام پٹڑی پر بحال نہیں ہو سکاہے اور نہ ہی ہونے والا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہہ مترقی،سیکولر،جمہوری اور قوم پرست خیالات رکھنے والوں اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان بہت زیادہ سیاسی فاصلے تھے۔دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف سمجھے جاتے تھے۔مگر پاکستان بننے کے بعد ان مترقی، جمہوری، سیکولر اور قوم پرست خیالات رکھنے والوں نے تعمیر پاکستان میں برطانوی مراعات یافتہ طبقے سے زیادہ سرگرمیاں دکھانے کی کوشش کی تھی اور وہ دل سے اس نو زائیدہ ملک کو خوشحال، محفوظ اور مترقی دیکھنا چاہتے تھے۔مگر چونکہ اگست میں پاکستان بننے کے بعد اقتدار پر اصل قبضہ برطانوی مراعات یافتہ طبقے یا برطانوی دور سے وراثت میں ملنے والی سول اور ملٹری بیورو کریسی کے ہاتھ میں تھا۔ان دونوں طبقات میں سیاسی اور معاشی ناطے رشتوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔وہ ہر مقام پر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے تھے۔لہذا ان کی کوشش تھی کہ ملک میں انہی نظریات کے حامل طبقات کو کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار سے دور رکھا جائے تاکہ وہ از خود اس ملک میں ایسا نظام یا طریقہ کار نافذ کریں جس میں اقتدار صرف ان برطانوی دور کے مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہواور برطانوی حکمرانوں سے وراثت میں ملنے والی سول اور ملٹری بیورو کریسی مضبوط ہو۔جس میں ابھی تک یہ لوگ کامیاب ہیںاور اب افغانستان کی جنگ کی بدولت ہی طبقہ اسلام کے نعرے کی بنیاد پر جنوب ایشیا پر اپنی مرضی اور مفادات کے تحفظ کے لئے ایک محفوظ سلطنت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان بننے کے بعد اس ملک میں تمام انہی محکموں اور اداروں نے کام شروع کر دیا اور کر رہے ہیں۔جو برطانوی نو آباد یاتی دور میں برطانوی حکمرانوں نے قائم کیے تھے۔
مگر پاکستان بننے کے چار دن بعد یعنی 14اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک اہم محکمہ قائم کیا۔اس محکمہ کا نام Department of Islamic Reconciliation)اسلامی افہام و تفہیم کا شعبہ،، اس محکمہ کا سربراہ مولانا اسد کو بنا دیا گیا۔ ایک نجی ٹی وی سے منسلک خاتون اینکر پرسن ڈاکٹرعمارہ کا کہنا ہے کہ مولانا اسد کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا اور اس وقت یہ یہودی خاندان اپنے یہودی مذہب کی ترویج و ترقی کے لئے تبلیغ کا کام سر انجام دے رہا تھااور اسی مقصد کے لئے یہ خاندان تبلیغ کی غرض سے دنیا بھر کے مذاہب اور ان کی زبانیں بھی سیکھتے تھے۔مولانا اسد کو عربی سیکھنے کے لئے مصر بھجوایا گیااور اس دوران جب اس نے اسلامی تعلیمات کا مشاہدہ کیا تو اس پر اسلام کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور انہوں اسلام قبول کر لیا۔اس وقت پاکستان بننے کے آخری مراحل میں تھا۔چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی پہلی ریاست تھی۔لہذا مولانا اسد کراچی پہنچ گئے۔اور ان کو قائداعظم محمد علی جناح سے ملنے کا موقع بھی مل گیا۔لہذا قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کو اسلامی محکمہ برائے افہام تفہیم کا سربراہ بنا دیا۔اس محکمے کے ذمے چار اہم اہداف رکھ دئیے گئے۔1آئین پاکستان کواسلام کے مطابق بنانا.(2)تمام تعلیمات کی بنیاد اسلام کے مطابق(3)معاشی نظام میں اسلام کے مطابق اصلاحات لائی جائیں اور نمبر (4)عشرو زکو ٰةکے نظام کو قائم کیا جائے۔مگر ان چار اہداف کے حصول کے لئے قائد اعظم نے سب سے پہلے دو اہم اقدامات کی نشاندہی کی تھی اور کہا کہ اگر یہ دو اہداف حاصل ہو جائیں تو پھر محکمہ برائے اسلامی افہام وتفہیم کے تمام تر اہداف کا حصول نہایت آسان ہو جائے گا۔(1)تمام تر برطانوی مراعات یافتہ طبقات کے انتظامی،سیکیورٹی اور سیاسی اختیارات کو ختم کرنا ہے اور(2)مختلف مکاتب فکر۔اسلامی نظریات اور طبقات کے مذہبی یا دینی مدارس کو کو ختم کرکے ایک نظام کے تحت ملک بھر میں اسلامی طرز تعلیم کو قائم کیا جائے۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ مولانا اسد نے قائداعظم کی ہدایات پر ان اہداف کے حصول کے لئے کام شروع کر دیا تو ان کی راہ میں نہ صرف رکاوٹیں کھڑی کی گئیںبلکہ چار دنوں کے بعد ہی ان کا محکمہ ختم کر دیا گیااور چار دنوں کے دوران جتنی بھی کاغذی کار وائی کی گئی تھی۔وہ دفتر میں پر اسرار طور پر لگنے والی آگ کے شعلوں کی نذرہو گئی اور یوں مولانا اسد مایوس ہوکر واپس مصر چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد اب اسلام کے نام پر اس ملک میں گھنائونے کھیل کا آغاز ہواجو ابھی تک جاری و ساری ہے۔
اس کھیل میں ماضی کے برطانوی دور کے مراعات یافتہ طبقات کے ساتھ دو اور طبقات نے بھی جنم لیااور یہ دو طبقات ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت میدان میں کھڑے رہتے ہیں۔یہ دو طبقات اس ملک کی تمام تر خرابیوں کی جڑ ہیںاور جب تک ان مخصوص طبقات کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکاجاتا تب تک اس ملک کا نظام صحیح پٹڑی پر نہیں آسکتا۔