368

لمحہ فکریہ – شہاب الرحمان

صحافتی زندگی اورمعاشرے کی سوچ بچپن میں ٹی وی پر رپورٹس کو دیکھ کر دل میں خواہش جاگتی تھی کہ میں بڑا ہوکر صحافی بنونگا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواہش بڑھنے لگی ایک صحافی سماجی کارکن بھی ہوتا ہے ایسے ہی میری زندگی کا آغاز بھی سماجی کاموں سے ہی ہوا 2010 میں جب ملک کے کئی حصوں سمیت خیبرپختونخوا بھی سیلاب جیسی آفت کا شکار ہوا اس میں میرا گائوں بھی تقریباً 60فیصد سیلاب کی زد میں آگیا تب ہی میں نے سماجی کاموں کا آغاز کیا وقت کے ساتھ ساتھ میرا شوق صحافت کی طرف ایک بار پھربڑھنے لگا کیونکہ نادار افراد کی آواز میڈیا کے ذریعے ہی حکام بالا تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ابتدائی سند کے بعد جامعہ پشاور سے شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری لی اور نجی نیوز چینل سے صحافت کا آغاز کیا فیلڈ میں آنے سے پہلے لوگوں کی باتیں سننی پڑتی تھیں کہ صحافی جھوٹے ہوتے ہیں اور خبر کے پیسے لیتے ہیں لیکن میں نے کسی کی بات پر توجہ نہ دی اور اپنے شوق کو پورا کیا اور فیلڈ کا حصہ بن گیا ٹریننگ کے دوران سینئر صحافی دوستوں نے پہلی بات ہی یہ سکھائی کہ زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے کتنی مضبوط دھمکی ہی کیوں نہ ملے اور نہ ہی کبھی ضمیر فروش بننا تب مجھے لگا کہ معاشرے کی سوچ الگ ہے جبکہ میڈیا ادارے اور صحافیوں کی سوچ الگ ہے وہ ہمیشہ ملک کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔ ادارے سے باہر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ صحافی ٹی وی پہ جو نظر آتا ہے وہ لاکھوں میں کماتا ہوگا لیکن یقین جانئے میں نے اپنے کام کا آغاز 5000 روپے تنخواہ سے کیا تھا اور مجھ سے سینئر تجربہ کار صحافیوں کی تنخواہ 30000 تک ہوتی تھی ۔میں اس فیلڈ میں نیا تھا مجھے صحافیوں کی اصل محنت کا اندازہ نہیں تھا کہ کس محنت اور جان پر کھیل کر صحافی ایک خبر کی تلاش کرتے ہیں اور اصل حقائق تک پہنچ کر خبر بناتے ہیں ۔ صحافی کبھی یہ نہیں دیکھتا کہ غلط کام کرنے والے کا تعلق کونسی سیاسی جماعت یاکونسے ادارے سے ہے صحافی اصل حقیقت کی گہرائی دیکھ کر خبر بناتے ہیں ۔ فیلڈ میں آنے سے پہلے جب صحافیوں کے لئے لفافہ اور جھوٹے جیسے الفاظ کا استعمال ہوتا تھا مجھے اتنا برا نہیں لگتا تھا لیکن فیلڈ میں آنے کے بعد جب اس قسم کے الفاظ سنتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ الفاظ میرے شعبے کے لئے نہیں مجھ پہ کسی نے ذاتی وار کیا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ صحافی کی نہ عید ہوتی ہے اور نہ کوئی کام کا وقت صحافی ہر وقت گرمی سردی روزے کی حالات میں کام جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ خبر دیتے دیتے خود خبر بن کر شہیدہوجاتا ہے اکثر سیاسی احتجاجوں میں تشدد کا نشانہ بھی صحافیوں کو بنایا جاتا ہے۔ان تکلیفات کے باجود جب صحافی اپنی قوم کو حقیقت سے آگاہ کرتا ہے تو اس پہ لفافہ صحافی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے ! آج ملک میں زیادہ تر صحافی میرے سمیت بے روزگار بیٹھے ہیں اس کے باوجود بھی اپنے ملک سے گندگی کو پاک کرنے کے لئے سوشل میڈیا کی مدد سے سب مفت کام کر رہے ہیں اور نادار افراد کی آواز بن رہے ہیں لیکن معاشرے کی سوچ آج بھی وہی ہے ! اس شعبے میں مرد صحافیوں کے ساتھ ساتھ خواتین صحافی بھی کام کررہے ہیں مردوں سے زیادہ ہر شعبے میں خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک خاتون سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ صحافت میں آئے بارہ سال ہوگئے ۔۔۔ وقت کیسے گزرا پتہ نہیں چلا ۔۔۔ تاہم 2008 سے اب تک کا سفر کٹھن اوردلچسپ رہا ۔۔۔ کٹھن اس لئے کہ صحافت کی الف ب تک پتہ نہیں تھی ۔۔۔ ایسے میں کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکرفرفربولنا ۔۔۔ یہ کمال کیسے آتا ۔۔۔ تاہم دفترکے ساتھیوں کے تعاون اورمدد سے چند ہی ماہ میں بہت کچھ سیکھ لیا ۔۔۔ دفتری اموراورساتھیوں کی جانب سے توکبھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی ۔۔ تاہم کام کرتے وقت باہرلوگوں سے جب پالا پڑتا تھا تو دل کرتا تھا زمین پھٹے اوراس میں دھنس جائوں ۔۔ لوگوں کا آوازے کسنا ۔۔ اوریہ کہنا کہ یہ توٹی وی والی ہے ۔۔۔ جا یہاں سے ۔۔۔ کافی برا لگتا تھا ۔۔ تاہم ہمت نہیں ہاری ۔۔۔ اورکسی کی پرواہ کئے بغیرفرائض انجام دیتی رہی اوریہی وجہ ہے کہ آج اچھے ادارے میں اچھے لوگوں کے ساتھ صحافت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہوں ۔۔۔ہمارے معاشرے میں سب سے تکلیف دہ سفر یہی ہوتا ہے کہ آپ جس شعبے میں آگے جانا چاہتے ہیں وہاں پر سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کی باتیں ہوتی ہیں ۔۔ یہاں تک کہ کئی لوگ اس کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ جنگی حالات میں جس طرح فورسز فرنٹ لائن پر ہوتی ہیں اسی طرح ہم صحافی بھی فرنٹ لائن پر ہوکر اپنی قوم کو ہر لمحے سے آگاہ کرتے ہیں کئی صحافی دوست شہید اور زخمی بھی ہوچکے ہیں ۔۔ موجودہ کورونا وائرس میں پشاور کے سینئر صحافی ہر لمحے سے عوام کو آگاہ کرتے کرتے کورونا کا شکار ہوتے ہوئے اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے ۔۔ صحافیوں کی بہت قربانیاں ہیں جو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔۔ صحافی کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا صحافی اپنے اردگرد ہونے والے ظلم اور ناانصافی کو عوام کے سامنے لاتے ہیں ۔۔ اپنی سوچ کو بدل کر حقائق کو تسلیم کرنا بہت اہم ہے ناکہ صحافیوں کے لئے لفافہ جیسے الفاظ استعمال کرنا ۔۔ سوچ کے بدلنے سے معاشرہ تبدیل ہوتا ہے تب جاکر ایک قوم ترقی کرتی ہے !
شہاب الرحمان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں