Skip to content
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انتظامیہ کی جانب سے وکلا کو ہراساں کرنے کے معاملے پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے آپریشن کی تیاری کی جا رہی تھی۔
پیر کو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’وکلا کی جانب سے کوئی کثر نہیں رہ گئی تھی، بس صرف یہ رہ گیا تھا کہ وکلا آئیں اور مجھے قتل کر دیں، لیکن میں نے کہا کہ بے شک مجھے مار دیں مگر کوئی بھی ایکشن لے کر تماشا نہیں بننے دوں گا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وکلا مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے اور احاطہ عدالت میں میڈیا نمائندگان پر تشدد بھی کیا، اگر ایسا کسی سیاسی جماعت کے لوگوں نے کیا ہوتا تو ریاست ان کے ساتھ کیا کرتی؟
انہوں نے کہا کہ عدالت پہلے واضح کر چکی ہے کہ صرف ان وکلا کے خلاف کارروائی کریں جو واقعہ میں ملوث ہیں، جن وکلا پرصرف شبہ ہے ان کو تنگ نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ’چیف جسٹس کو پانچ گھنٹے تک محصور رکھا گیا مگر میرا کوئی غصہ نہیں یہ معاملہ قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے، بارز اور وکلا کو خود جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ بار کے عہدیداروں کو میں نے اس دن بے بس دیکھا۔‘
سیکرٹری ہائی کورٹ بار نے سماعت کے دوران کہا کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیٹی تشکیل دی جائے جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’آپ سب کو معلوم ہے کہ، یہ سب کس نے کیا اس کے لیے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں ہے۔‘
وکلا کے نمائندوں نے عدالت میں بتایا کہ کسی ایک وکیل کا نام آتا ہے تو پولیس اس نام والے تمام وکلا کو ہراساں کرنا شروع کر دیتی ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس کی تحقیقات کے لیے چیف کمشنر نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے جس میں پولیس اور حساس اداروں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے۔
جے آئی ٹی میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن،ایس ایس پی سی ٹی ڈی ایس پی صدر، ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او مارگلہ جے آئی ٹی میں شامل ہیں جبکہ آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
جے آئی ٹی اسلام آباد ہائیکورٹ، ہائیکورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار سے مدد لے گی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تھانہ مارگلہ اور رمنا میں اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیسز کی تفتیش کرے گی۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں