336

میں نہیں مانتا – نوالبشر

میں اس کو نہیں مانتا” ایک جملہ یا ایک نفسیات ہے، اور “مجھے اس کے بارے میں معلومات نہیں ہیں” ایک الگ جملہ یا نفسیات ہے۔بظاہر دونوں میں انکار کا عنصر پوشیدہ ہے، مگر دونوں جملوں کے رویوں میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ پہلے جملہ میں فخر، بڑائی اور تکبر کے واضح آثار موجود ہیں، درج بالا رویوں کے مقابل “مجھے نہیں معلوم” میں خوا مخاعملی بڑائے کرنے کے بجائے کم علمی کا برملا اظہار، انکساری اور مستقبل میں سیکھنے کا عنصر شامل ہے۔ان دونوں جملوں کی مکمل تشریح حضرت عمر خطاب اور اپنے زمانے کے انٹیلکچول ابو جہل کے رویوں میں تھا۔ رشتہ میں یہ دونوں حضرات چچا اور بھتیجا تھے۔آپ کو شائد بہت برا لگے گا اگر میں ابو جہل کی اسکی قبولیت اسلام سے ہٹ کر اسکی شخصی حیثیت میں تعریف کروں۔مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے وقت کا لائق فائق اور سمجھ داری میں سب سے بڑھ کر تھا۔ اہل قریش میں بلند پائے کے لوگ موجود تھے، اس کے باوجود ابو جہل کا بہت اونچا مقام تھا۔



قریش ابو جہل کو اس کے تدبر اور حکمت کے باعث ابو الحکمت یعنی حکمت و دانائی کا باپ کہتے تھے۔اتنے اعلیٰ مقام کے فرد کو جہالت کا باپ اس سوچ نے بنایا کہ “میں نہیں مانتا”عمر خطاب، ایک غصہ ناک آدمی، جو باپ کے اونٹ چراتا تھا اگرچہ حکمت و دانائی میں آپ بھی بلند مقام پر کھڑے تھے، مگر اہل قریش میں آپ کا مقام ابو جہل سے کم تھا۔ممکن ہے حضرت عمر کے بارے میں کہی گئی یہ بات درست نہ ہو، میری اصلاح اور ناقص معلومات کی درستگی کے لئے قارئین کی توجہ کا منتظر اور طلب گار ہوں گا۔عمر خطاب کو عمر فاروق، اور دین و دنیا میں بلندی کی معراج تک لے جانے میں یہی رویہ کارفرما تھا کہ آپ نے اس پر تکرار نہیں کیا کہ “میں نہیں مانتا” بلکہ آپ کا رویہ “مجھے نہیں معلوم” والا تھا۔آپ ابو جہل کی طرح ضد پر نہیں اڑے، آپ نے “معلوم” کیا، اور جب آپ کو لگا کہ یہ حق ہے تو اس کو دل و جان سے قبول کیا۔”میں نہیں مانتا” والا رویہ آگے بڑھنے کا راستہ محدود کرتے کرتے بالکل ختم کر دیتا ہے۔ کیونکہ اس رویے کے باعث سیکھنے سمجھنے کا عمل قطعی طور پر رک جاتا ہے۔ جس چیز کو آپ ماننے سے انکاری ہو جائیں، وہ لاکھ بہتر کیوں نہ ہو، وہ آپ کو فائدہ نہیں دے سکتا، کیوں کہ نہ ماننے کی روش کے باعث آپ اس کے بارے میں جانیں، اس کے بارے میں لگن اور جستجو کا راستہ شروع ہونے سے قبل ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس “مجھے نہیں معلوم” میں آپ جہاں اپنی کم علمی کا برملا اظہار کرتے ہیں، وہیں پر اس کو جاننے کی لگن اور خواہش آپ کے لاشعور میں فوری بیدار ہو جاتی ہے، آپ اپنی کم علمی کو دور کرنے کی خاطر اس کو جاننے کے لئے غور و فکر کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کا آغاز کرتے ہیں۔



یہی عملی اقدامات آپ کو کامیابی کی جانب گامزن کرتی ہے، اور جوں جوں آپ آگے بڑھتے ہیں، کامیابی کے دروازے آپ پر واشگاف ہوتے جاتے ہیں۔دنیا میں جتنی ایجادات ہوئی، جو نئی چیزیں دریافت ہوئیں، ان کو ایجاد کرنے والے، ان کو دریافت کرنے والے پہلے دن سے اس بات پر یکسو تھے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہو سکتا ہے، مگر ہم اس کو معلوم کرنا چاہتے ہیں۔جہاز ایجاد کرنے والے وائٹ برادران اگر اس ضد کو اختیار کر لیتے کہ انسان ہوا میں نہیں اڑ سکتا، اور وہ اس بات پر کامل یکسو ہو جاتے کہ کوئی مشین کوئی انجن ہوا میں نہیں تیر سکتا، تو کیا وہ جہاز بنانے میں کامیاب ہو جاتے ؟؟ہر گز نہیں۔ جب وہ ایک چیز کو ماننے سے انکاری بن جاتے تو اس کام کے لئے وہ کوشش کیونکر کرتے ؟کامیابی اور ناکامی کا سہرا تالاش اور محنت کرنے میں پوشیدہ ہے۔ انسان جس چیز کی تالاش کرتا ہے، جس مقصد کے لئے محنت کرتا ہے، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جس چیز کے لئے انسان سعی نہ کرے، اسکی کے لئے تگ و دو نہ کرے، اس میں کامیابی پانے یا ناکامی ملنے کا جواز ڈھونڈنا درست نہیں ہو گا۔ہم اور آپ اس رویے کے باعث ترقی و کامیابی کی رفتار تیز کر سکتے ہیں اگر “میں نہیں مانتا” کی تکرار اور ضد کے بجائے “مجھے نہیں معلوم”، اور اس کے بعد اس نہیں معلوم کو معلوم کرنے کی سعی کرنے والا راستہ اختیار کریں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں