”نیب کا ادارہ چل نہیں رہا، مقدمے درج ہو رہے ہیں فیصلے نہیں ہورہے، مقدمات بیس بیس سال سے زیر التواء ہیں، یہی ہونا ہے تو کیوں نہ نیب اور احتساب عدالتیں بند کردیں”۔
قومی احتساب بیورو کی کارکردگی پر گزشتہ روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے اس قدر سخت اظہارِ عدم اطمینان، ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے نام پر قائم کیے گئے ادارے کی کارکردگی پر یقیناً ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ نے نیب آرڈیننس کی دفعہ 16کے تحت احتساب عدالتوں میں نیب ریفرنسوں کے تیس دن کے اندر اندر فیصلے جاری کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے نیب کی کارکردگی کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں صورت حال کی مزید صراحت ان الفاظ میں کی کہ ”قانون کے مطابق تو نیب ریفرنس کا فیصلہ تیس دن کے اندر اندر ہوجانا چاہئے لیکن لگتا ہے کہ نیب کے ملک بھر میں زیر التوا 1226ریفرنسوں کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی،ریفرنسوں کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے نیب کے قانون کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا؟” قومی احتساب بیورو کے سربراہ اور حکومت وقت کی جانب سے اگرچہ نیب کی کارکردگی پر بالعموم اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن چیف جسٹس نے جن وجوہ سے معاملات کو قابلِ توجہ قرار دیا ہے وہ ایک کھلی حقیقت ہیں، اس کے باوجود عدالت میں زیر سماعت اس قدر اہم مقدمے میں وفاق کے متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کا نہایت ناقابلِ رشک مظاہرہ اس صورت میں ہوا کہ عدالتی نوٹس کے باوجود سماعت کے دوران اٹارنی جنرل، پراسکیوٹر جنرل نیب اور وفاقی سیکرٹری قانون عدالت میں موجود نہیں تھے۔
تاہم عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں بدعنوانی کے مقدمات جلد نمٹانے کی خاطر حکومت کو کم از کم 120نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت کی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ پہلے سے موجود پانچ احتساب عدالتوں میں ججوں اور دیگر عملہ کی خالی اسامیوں پر ایک ہفتے کے اندر اندر تعیناتیاں کرنے اور چیئرمین نیب کو اپنے دستخطوں سے تجاویز جمع کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کی دفعہ 16کے تقاضوں کے مطابق زیر التواء ریفرنسوں کے تین ماہ کے اندر اندر فیصلوں کو یقینی بنانے کیلئے چیئرمین نیب سے بھی تجاویز مانگ لی ہیں نیز یہ انتباہ بھی کیا ہے ۔ اگر پانچ احتساب عدالتوں میں ججوں کی خالی اسامیوں پر تعیناتی نہ کی گئی تو لاپروائی کے ذمہ دار افسروں کے خلاف سخت ترین ایکشن ہوگا۔ یہ سوال یقیناً سنجیدہ غور و فکر کا طالب ہے کہ قومی احتساب بیورو جس کا قیام نومبر 1999میں فوجی انقلاب کے ایک ماہ بعد ان یقین دہانیوں کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا کہ بلاامتیاز، نے لاگ، شفاف اور غیرجانبدارانہ احتساب کے ذریعے یہ ادارہ ملک سے ہر قسم کی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کام کرے گا، وہ اپنے اہداف ومقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہو سکا ہے۔ اس ادارے کے تین عشروں سے سرگرم کار ہونے کے باوجود یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ نہ صرف یہ کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس کا پھیلائو اور حجم مسلسل بڑھتا چلا گیا۔ اس کی وجہ واضح طور پر یہ ہے کہ وقت کی حکومتیں اس ادارے کو روزِ اول ہی سے بالعموم اپنے مخالفین کو دبائو میں رکھنے اور سیاسی وفاداریاں بدلوانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی چلی آرہی ہیں جس کے باعث وہ مقاصد نظر انداز ہورہے ہیں جن کی یقین دہانیوں کے ساتھ اسے وجود میں لایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کو اس معاملے کا خود نوٹس لینا پڑا تاہم کم از کم اب حکومت کو عدالتی ہدایات پر بلاتاخیر عمل کرکے نیب کے حقیقی مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کرنی چاہئے،وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں پاکستان پوسٹ کو بینک کا درجہ دینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ محکمے کے ذمہ 14لاکھ پنشنروں کو اے ٹی ایم اور ڈیبٹ کارڈ فراہم کئے جائیں گے جس سے یہ لوگ گھر بیٹھے پنشن حاصل کر سکیں گے۔ سرکاری پنشنروں کے لئے یہ اقدام وقت کی ضرورت ہے اور یہ سہولت ای او بی آئی نجی شعبے سے وابستہ افراد کو پہلے ہی دے رہا ہے۔ پاکستان پوسٹ جنوبی ایشیا کا قدیم ترین محکمہ ہے جو بلاشبہ قیامِ پاکستان کے بعد عوام الناس کی خدمت میں پیش پیش رہا ہے اور ملک کے طول و عرض میں دور افتادہ علاقوں تک لوگوں کو ڈاک کی سہولیات بہم پہنچائیں تاہم ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں داخل ہونے کے بعد یہ محکمہ ماضی کی حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار ہوتا چلا گیا اور اب کم و بیش دو دہائیوں سے معاشی اتار چڑھائو کا شکار ہے اس دوران اب تک ملک بھر میں درجنوں ڈاکخانے بند ہو چکے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں آج بھی یہ محکمہ انتہائی فعال ہے، وطن عزیز میں بھی نجی شعبے میں بہت منافع بخش ثابت ہو رہا ہے، اس وقت ملک بھر میں ڈاکخانوں کی تعداد 13ہزار کے لگ بھگ ہے جن سے دو کروڑ افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ یوٹیلٹی بل، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے محصولات، سیونگ بینک، پوسٹل لائف کی سہولیات آج بھی میسر ہیں۔ آج بھی ریلوے کے بعد یہ دوسرا محکمہ ہے جس کے اثاثوں کی مالیت سب سے زیادہ ہے۔ وفاقی وزیر مواصلات نے نشاندہی کی ہے کہ ماضی میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اس وقت بھی محکمے کی 83برانچیں ڈیجیٹلائزیشن سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سات ارب کے خسارے میں جانے والے اس ادارے کے منافع میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم نے تین ارب بیس کروڑ روپے کی چوری پکڑی ہے،
پی ٹی آئی حکومت کے یہ اقدامات بجا طور پر وقت کی اہم ضرورت ہیں مزید بہتر ہوگا کہ ایک مربوط پروگرام کے تحت پاکستان پوسٹ کو پہلے جیسا نفع بخش محکمہ بنانے کی سعی کی جائے،کئی دہائیوں سے پانی کی کمیابی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ شہر کراچی کے ایسے دیرینہ مسائل ہیں جن کے حل کیلئے مختلف ادوار حکومت میں انتظامی سطح پر جہاں سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں وہیں اس شہر سے ووٹ لینے والی جماعتوں کی جانب سے بھی اس شہر کے مسائل کیلئے کوئی قابلِ ذکر آواز نہیں اٹھائی گئی۔ تاہم اچھی بات ہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں کراچی کے مسائل زیر بحث آئے اور حکومتی و اپوزیشن اراکین نے وفاق سیکراچی کو بجلی فراہم کرنے کے ذمہ دار ادارے کے الیکٹرک کیخلاف نہ صرف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ کمپنی کے سربراہ کو ایوان میں طلب کرنے پر بھی اتفاق کیا، بدھ کو (ن)لیگ کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال نے کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کا مسئلہ ایوان میں اٹھاتے ہوئے تجویز دی کہ بجلی اور پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے ایوان کے ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے۔ حکومتی رکن فہیم خان کی جانب سے دی گئی اس تجویز پر بھی غور ہونا چاہئے کہ کے الیکٹر ک کے مقابل کوئی دوسری کمپنی لائی جائے تاکہ اس ادارے کی اجارہ داری ختم ہو،یہ ایک حقیقت ہے کہ بجلی کی ترسیل و تقسیم کے ادارے کے ای ایس سی کی نجکاری کے بعد سے شہر قائد کے باسیوں کی مشکلات میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ تو ایک طرف اب اووربلنگ، مختلف سلیب ریٹس اور کئی دوسری مدوں میں اضافی چارجز کی وصولی جیسی شکایات بھی عام ہو گئی ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان شکایات کے سدِباب کیلئے انتظامی سطح پر موثر کوششیں ہنوز نظر نہیں آتیں۔ حالیہ بارشوں میں کرنٹ لگنے سے کئی افراد کی اموات مذکورہ کمپنی کے شہر میں بچھے انفراسٹرکچر کی پائیداری پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے، واضح رہے کہ گزشتہ مون سون میں بھی کئی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس باب میں بھی فوری طور پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے۔ پاکستان نے درست طور پر بھارت کی نریندر مودی سرکار کو متنبہ کیا ہیکہ وہ آگ سے نہ کھیلے کیونکہ نئی دہلی کی مہم جوئی کے سنگین نتائج برآمد ہونگے جن پر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ انتباہ بھارت کے متعدد اقدامات، بیانات اور طرزعمل کے منظر نامے میں ایک لحاظ سے وقت کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے”جیو نیوز” کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں بھارت کے ان اقدامات اور خود ساختہ ڈراموں کی تفصیل بھی بیان کی جنہیں دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف مہم جوئی پر تلا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نئی دہلی کے حکمرانوں کو جب بھی داخلی طور پر مشکل صورتحال کا سامنا ہوا یا 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر میں کئے گئے اقدامات جیسی پالیسیوں پر عالمی برادری کا سخت ردعمل ظاہر ہوا تو وہ پاکستان کی سرحدوں پر فوجیں جمع کرنے یا کسی اور مہم جوئی کے ذریعے اصل مسئلہ سے بھارتی رائے عامہ اور عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کا طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ 1970میں اپنے ہی طیارے ”گنگا” کو بھارتی انٹیلی جینس ایجنٹوں کے ہاتھوں اغوا اور تباہ کرنے کے ڈرامے سے لیکر حالیہ ”پلوامہ ٹو” تک خود ساختہ ڈرامے رچانے اور المیے تخلیق کرنے کا ایک طویل ریکارڈ ہے جس کا اعتراف بھارتی عدالتوں میں بعض دیگر امور پر مقدمات کے دوران بھارت ہی کے اعلیٰ افسران کی زبانی ہوتا رہاہے۔ ”پلوامہ ٹو” میں تو دن کی روشنی میں مشتبہ قرار دی گئی گاڑی کو تباہ کر کے شواہد مٹائے گئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 5اگست 2019سے جاری لاک ڈائون اور وحشیانہ مظالم کے علاوہ خود بھارت میں مختلف حیلوں سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات اور شہریت کے متنازع قانون کے سنگین اثرات پر دنیا بھر سے مذمت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جا چکا ہے۔