جب سے فاٹا خیبر پختونحوا میں ضم ہوا ہے تب سے تمام قبائلی محکموں کو بھی صوبائی محکموں میں ضم کرنے کے مرحلے میں مشکلات پیش آرہی ہیں جس میں پولیس کا محکمہ پیش پیش تھا۔مگر وہ بھی قبائلی عوام کی لگ بھگ خواہشات کے مطابق عارضی طور پر حل کیا گیااسکے دو سال بعد اب ضلع مہمند سے نومنتخب خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ممبر نے جب قانون اور آئین کے مطابق ضلع مہمند کی زمین پر بننے والے ورسک ڈیم کی پیداوار میں رائلٹی مانگی تو اسی ورسک کے قریب کافور ڈھیری پشاور کے علاقہ سے منتخب ایم پی اے اور ڈپٹی سپیکر محمودخان نے ان کو چپ کراتے ہوئے کہا کہ وارسک ڈیم پشاور کے علاقہ میں بنا ہے اور رائلٹی مانگنے کا آپکا بالکل حق نہیں بنتا۔اس سے پہلے بھی جب فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم نہیں ہوا تھا تو یہی تنازعہ کھڑا ہوا تھا کہ ورسک ڈیم کی زمین قبائل کی ملکیت ہے یا صوبہ خیبرپختونخواکی ہے۔پھر یہ طے ہوا کہ یہ اس وقت کی خیبر اور مہمند ایجنسیوں کی مشترکہ جاگیر ہے۔مگر اب حکومت پختونخوا کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈیم پشاور کی ملکیت میں بنا ہے لیکن اس تنازعہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے تاریخ پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔دورِ جدید سے پہلے علاقوں کی حدود مقرر کرنے کیلئے اکثر پہاڑ یا دریائوں کو حدیں مان کر کی جاتی تھیں۔اس طرح ڈیورنڈ لائن کھینچنے سے پہلے لال پورہ سے لے لیکر پشکلاوتی(چارسدہ)اور پشاور تک کا علاقہ مہمند قوم کی جاگیر سمجھاجاتا تھا۔
جب سکھ1835کو شنکرگڑھ(شبقدر)آئے تو دوآبہ جاگیر اور مہمند کے درمیان دلدل زمین کے ایک خشک ڈھیرے پر ایک قلعہ شنکرگڑھ بناکر مہمند کا سرحدی علاقہ ہڑپ کرگئے۔جس کیلئے لال پورہ کے سعادت خان مہمند نے1840کو تمام مہمند قوم پر مشتمل ایک لشکر بناکر شنکرگڑھ پر حملہ کیا۔مگر اب تک اس علاقہ ،جو اب شبقدر ڈھیری کے نام سے مشہور ہے،کو مہمند قوم کی ملکیت میں دینے سے انگریز بھی اور بعد میں حکومت پاکستان بھی مکر رہی ہے ۔اس طرح جب انگریز کے پائوں یہاں جمنے لگے تو مہمند قوم میچنی اور موجودہ وارسک،متھرا اور پلوسئی کے علاقوں سے ہوتے ہوئے پشاور پر حملہ آور ہوتے تھے۔
اس طرح مہمند کے ذیلی قبیلہ ترکزئی کے شمسرخیل گائوں کو دریا کے بائیں طرف پشاور سائیڈ پر واقع کو انگریز نے1852کو مسمار کیا۔اس طرح لال پورہ کے خوانین جو تمام آزاد مہمند وطن کی سرداری کرتے تھے،اپنی جاگیر پر انگریز کو قابض دیکھ کر 1850سے 1890تک حملہ آور ہوتے رہے۔مگر جب انگریز مضبوط ہونے لگے تو انکی رسد کابل تک پہنچ گئی۔اس طرح مہمند قوم دو اطراف سے انگریز کے گھیرے میں تھے۔جبکہ 1880میں انگریز نے جب خیبر کے علاقہ سے ریل پٹڑی گزارنے پر کام شروع کیا تو سعادت خان مہمندکے بیٹے نوروز خان کی قیادت میں مہمند قوم کے ذیلی قبیلوں حلیمزئی اور ترکزئی نے حملہ کرکے مزدوروں اور سامان کو نقصان پہنچایا اور اپنے ساتھ لے گئے۔
اب انگریز مہمند قوم کی ان کاروائیوں سے تنگ آگئے۔تو افغانستان کے حکمران امیر شیر علی خان کے بیٹے امیر یعقوب خان جو لال پورہ کے سعادت خان مہمند کے نواسے اور نوروز خان کے بھتیجے تھے،نے مہمند قوم کے دو قبیلوں ترکزئی اور حلیمزئی کو پشاور بلاکر معاہدہ گندمک کے مطابق ان کو پیسے دیکر انگریز کیلئے پٹڑی گزرنے میں مسائل نہ پیدا کرنے پر راضی کردئیے ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علاقہ خیبر میں بھی مہمند قوم مداخلت کرتی تھی اور یہ بات اس وقت انگریز نے بھی مان لی تھی۔
اس طرح ورسک سے مغرب کی طرف علاقہ ڈکہ جس میں ترکزئی اور مہمند کی دوسری اقوام جیسے شلمانی آباد ہے بھی مہمند قوم کی ملکیت میں تھا۔یہاں کے سردار کو سرہنگِ ڈکہ کے نام سے پکارتے تھے،کی مدد کیلئے سعادت خان کے پوتے اکثر آتے تھے۔ 1879کو میچنئی سے آگے ناصر کوٹ میں سعادت خان کے چھوٹے بیٹے بہرام خان مہمند نے حملہ کرکے میجر میکڈونلڈ کو زخمی کیا اور پھر تلواروں سے مار کر ہلاک کیا۔اسکا بدلہ لینے کیلئے انگریز انکے پیچھے ڈکہ تک پہنچے جبکہ اس پاداش میں انگریز نے ترکزئی قبیلہ کو دس ہزار روپے جرمانہ کیا۔مختصر یہ کہ جب سے مہمند قوم نے آج سے چھ سات سو سال پہلے ہجرت کی تو یہاں آکر آباد ہوئے اور تب سے اب تک مہمند قوم کے ذیلی قبیلے یہاں رہائش پذیر ہیں مگر جب یہ پورا علاقہ انگریز کے قبضہ میں آیا،تو پہلی دفعہ علاقہ کی بندوبست مسٹر ہیسٹنگ کی قیادت میں 1880کو ہوئی۔
چونکہ اسکے بعد سعادت خان کے پوتوں کے انگریز کے ساتھ تعلقات اچھے ہوگئے جس کے بدلے میں انہیں ان کی جاگیریں واپس کردی گئیںتو اس بندوبست کے مطابق وارسک، متھرا اور شالم تک کا علاقہ لال پورہ کے ترکزئی مورچہ خیل کے خوانین کے حصہ میں آگیا۔جسکا مطلب ہے کہ پشاور کا پورہ شمالی علاقہ مہمند قوم کی جاگیر بن گیا ۔اب اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ورسک ڈیم کے دونوں طرف کا علاقہ مہمند قوم کی جاگیر ہے،چاہے یہ علاقے جغرافیائی طور پر ضلع خیبر اور ضلع پشاور میں کیوں نہ ہو مگر جاگیر بھی مہمند قوم کی ملکیت ہے اور یہاں آباد بھی مہمند قوم ہے۔
519