ملک میں زرعی معیشت کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کے نرخ 50فیصد کم کئے جائیں،نئے ٹیوب ویل کنکشنوں پر عائد پابندی فوری طور پر ختم کی جائے، جن علاقوں میں نہری پانی موجود نہیں وہاں زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کے فلیٹ ریٹ نافذ کئے جائیں تاکہ کاشتکارزرعی پیداوار بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔اور اس وقت مشینی کاشت زرعی پیداوار بڑھانے کا ایک موثر ذریعہ ہے پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے لیکن وسیع علاقے آج بھی اس سہولت سے محروم ہیں۔ دریاوں میں پانی کی کمی زرعی معیشت کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے جہاں نہری نظام موجود نہیں وہاں کاشتکاروں کا انحصار صرف بارش پر ہے ۔دنیا کے اکثر ممالک میں زراعت پر بھاری سبسڈی دی جاتی ہے لیکن عالمی مالیاتی ادارے اب سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس حوالے سے کاشتکاروں کی مشکلات کا ازالہ کرنے خشک سالی کے خطرات سے نمٹنے اور زرعی پیداوار کی لاگت کم کرنے کیلئے نہ صرف بارانی علاقوں میں زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کے نرخوں میں کمی ناگزیر ہے بلکہ زرعی ٹیوب ویلوں کے کنکشنوں پر عائد پابندی کا خاتمہ بھی ضروری ہے ورنہ لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر اور ویران پڑی رہنے سے کاشتکاروں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا اور زرعی پیداوار میں اضافے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔اور اب پاکستانی معیشت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ڈبلیو ٹی او ہے۔ڈبلیو ٹی او کے نظام کے تحت اس امر کی ضرورت تھی کہ امیر ممالک غریب ممالک کو جدید علم و فن اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور کرتے اور ان کی سستی صنعتی مصنوعات اور زرعی اجناس کی کھلی درآمدات کیلئے اجازت دیتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا امیر ممالک اپنے کثیر سرمایہ کو کسی بھی ملک کو بلا روک ٹوک ٹرانسفر کر سکتے ہیں لیکن غریب ممالک کا سرمایہ ان کے محنت کش ہیں جبکہ امیر ممالک میں نقل و حرکت پر مکمل پابندی ہے جس سے اس عالمی معیشت کے عدم مساوات کا استحصالی نظام واضح ہوتا ہے۔عالمی سطح پر عالمی معیشت کے نظام کے جائزہ سے آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور ڈبلیو ٹی او نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس نظام سے ترقی پذیر ممالک میں غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ملک میں جہاں ہر ایک منٹ کے اندر دو افراد انتقال کر جاتے ہیں وہیں اسی ایک منٹ میں سات بچے پیدا ہوتے ہیں اور یوں ہر منٹ کے اندر ملک کی آبادی میں پانچ افراد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک ادارے کے سروے اور اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان کی آبادی میں 29 لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے ۔ پاکستان کی آبادی تقریبا ً22 کروڑ ہو چکی ہے ان میں سے سوا پانچ کروڑ لوگ اب بھی ان پڑھ ہیں جبکہ چھتیس لاکھ سے زائد بالغ افراد بے روزگار ہیں اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح ایک اعشاریہ نو فیصد ہو چکی ہے۔آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے صحت کی سہولتیں بھی محدود ہوتی جارہی ہیں۔نئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر 400افراد کیلئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے ہر 3261افراد کیلئے ایک نرس موجود ہے جبکہ ہر 1531 افراد کیلئے ہسپتال کا ایک بستر دستیاب ہے۔ پانچ کروڑ70لاکھ لوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں،پانچ کروڑ60لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے اور ساڑھے سات کروڑ سے زائد لوگ صحت و صفائی کی سہولتوں سے محروم ہیں ۔پاکستا ن کی آبادی اور اس کے رہن سہن کے حالات کی عکاسی کرنے والے یہ اعداد و شمار ہمیں ایک نہایت پریشان کن تصویر دکھاتے ہیں ان اعداد و شمار سے آگاہ ہونے کے بعدیہ خدشہ بھی دامن گیرہونے لگتا ہے کہ یہ تو اندازہ کے اعداد وشمار ہیں،اصل حقائق شاید اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم گزشتہ نصف صدی سے محض دعووں پر زندہ ہیں۔اور تمام حکومتیں ہمارے اوپر خواب فروخت کرتی آئی ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کئے جانے والے حکومتی دعووں کو جمع کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ہم پاکستان کی ساری آبادی کو پڑھا لکھا بنا چکے ہیں۔ہر شخص کو رہنے کیلئے گھر اور ایک با عزت روزگار فراہم کر چکے ہیں ۔سکولوں اور ہسپتالوں کے جال بچھا چکے ہیں اور ترقی کے اعتبار سے پاکستان کو مغربی ممالک سے بھی کہیں آگے پہنچا چکے ہیں ایسے خواب دیکھتے دیکھتے کئی نسلوں کی آنکھیں بے نور ہو چکی ہیں لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔سرکاری رجسٹروں میں آج بھی بدستور یہی درج کیا جا رہا ہے کہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے لیکن وہ ترقی عوام کی زندگیوں میں کہیں نظر نہیں آرہی ہے پاکستان کے بارے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار ہمیں اور ہماری حکومت کو خوش گمانیوں کی دنیا سے نکل آنے اور زمینی حقائق کا سامنا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔حکومت کے منصوبہ سازوں کو پاکستان کے22کروڑسے زائد عوام کے یہ بنیادی مسائل حل کرنے پر حقیقی توجہ دینی چاہئے۔
322