1,391

پشتوکے عظیم شاعر ”خاطر آفریدی ” کی51 ویں برسی

عمران شینواری

خیبر کی مٹی شعر واداب کے حوالے سے بہت زرخیز ہے اس مٹی نے بڑے شاعر اور ادیب پیدا کئے ہیں بابائے غزل امیر حمزہ خان شینواری کے نام پر لر اور بر پختو نخوا جاناجا تاہے جبکہ خیبر آفریدی ،لعل زادہ ناظر ،مراد شینواری ،خسرو کے علاوہ دوسرے بڑے شاعر اس مٹی کی پیدوار ہیں لیکن اس میں ایک نام ،،مصری خان خاطر آفریدی کا بھی ہے جن کی شاعری کے دو بنیادی جز ہیں ایک آسان اور سادہ اور دوسرا رومانیت یعنی عاشقانہ شاعری ہے جس کی وجہ سے لوگ انہیں بہت زیا دہ پسند کر تے ہیں۔

مصری خان آفریدی 1929میں خیبر ذخہ خیل صدوخیل میں اکبر خان کے گھر پیدا ہوئے خاطر آفرید ی غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے غربت کی وجہ سے انہوں نے لنڈیکوتل بازار میں باسر نامی شخص کے ساتھ ہو ٹل میں کام شروع کیا اسکے بعدانہوں نے پولیٹیکل ایجنٹ باغ میں بطور مالی کام شروع کر دیا ۔لعل زادہ ناظر انکے استاد تھے لعل زادہ ناظرامیرحمزہ بابا کے بھانجے تھے لعل زادہ ناظر بہت سی محفلوں میں جب خاطرآفریدی کا ذکر کرتے تووہ کہتے تھے کہ خاطر آفریدی جب ہوٹل میں کام کرتے تو انکے ہو ٹل مالک باسر نے انہیں بتا یا کہ انکے شاگرد میں ایک شاعر چھپا ہوا ہے لیکن وہ اظہار نہیں کر سکتے جس پرانہوں نے خاطر سے پوچھا کہ آپ شاعر ہیں تو انہوں نے بتایا کہ انکی وہ چیز یعنی تخلص نہیں ہے جو آپ لوگوں کا ہے لعل زادہ ناظر کے مطابق اسکے بعد انہوں نے خاطر آفرید ی کا تخلص دیا ۔

اسکے بعد پہلا شعر (ذہ چہ تخمونہ دا گلانو کرم ،داماشوقے دا بلبلانوکرم)اصلاح کیلئے پیش کیا اسکے بعد کئی اشعارکی اصلاح حمزہ با با سے بھی کی ،مصری خان خاطر آفرید ی کے اشعارمیں درد اور عاشق کیلئے مر ہم پٹی کے برابرہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ

خکلی بہ سر ٹیٹ کڑی یارہ ستا پہ تصور کے
ڈیر خاطرہ ستا د غزلونو پہ سرونو

اس میں کوئی شک نہیں کہ خاطر آفریدی اس فانی دنیا سے دل میں بہت زیادہ ارمان لے کر چلے گئے ہیں وہ اپنی شاعری میں کہتے ہیں کہ اگر یہ دل سو ز ارمان اگر گور تک لے گئے تو نزدیک مزار بھی انکے ساتھ جل جائیں گے اس لئے وہ کہتے ہیں (دا ارمانونہ مے کہ گور تہ یووڑل ،نزیدے مزار بہ شی لوگے راسرہ )خاطر آفرید ی کی شاعری میں جگہ جگہ پر احسا س اور ارمان کا ذکر بار بار آتا ہے۔

خاطر آفرید ی کی ایک کتاب (دیوان خاطر)شائع ہو چکی ہے اگر خاطر آفریدی کی زندگی اور شاعری پر نظر ڈالیں تو چالیس سال کی عمرمیں جس میں بچپن اور دس سال بیماری جس میں مشکل سے 25سال بر ابر ہو تی ہے میں پندرہ سال شاعری کی ہو گی لیکن خاطر آفرید ی نے دردسے بھری ہوئی شاعری سخت بیماری میں کی ہے خاطر آفریدی کو غزل میں بھی شہرت ملی ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ علاقائی زندگی اوراپنے علاقے کے رسم رواج کے مطابق شاعری ہے اور زیادہ تر غزل اس وقت انکے علاقے میں رہائش پذیر رباب استاد باغیرم نے اس وقت حالات کے مطابق حجروں میں گا تے تھے۔

خاطر آفریدی جب بھی نئی غزل لکھتے تھے تو وہ باغیرم استاد کو موسیقی کیلئے تیار کرتے تھے خاطر آفریدی نے سخت بیماری میں شاعری جاری رکھی ہوئی تھی اس لئے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خاطر آفریدی کے کچھ اشعار یاد ہونگے اوراسی طر ح لر اور بر پختونخوامیں گلوکار رباعی اور غزل ضرور گا ئے ہو نگے کیونکہ انکی شاعری بہت آسان اور سادہ ہے اورہر کوئی لکھ اور پڑھ سکتا ہے ۔

مصری خان خاطر آفریدی ٹی بی جو اس وقت لاعلاج مرض تھا میں مبتلا تھا اور ٹی بی بیماری کی وجہ سے وہ 1968میں اس فانی دنیا سے چلے گئے وہ جوانی میں انتقال کر گئے تھے اس لئے انہیں (زوانی مرگ خاطر)بھی کہتے ہیں اس سلسلے میںایک نوجوان شاعر جو خاطر آفریدی کے گائوں سے تعلق رکھتے ہیں طاہر پرہر کہتے ہیں پشتو زبان وادب بہت بڑا اور لمبی حیثیت رکھتا ہے مختلف وقتوں میں مختلف شخصیات پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے پشتو زبا ن اور ادب کی بہت زیا دہ خدمات کی ہیں جس میں خیبر ضلع بہت اچھا (فراخہ )حصہ رکھتا ہے ۔

پشتو اداب کیلئے بہت خدمات کی ہیں پہلے خیبر ضلع تاریخی حیثیت کی وجہ سے اہمیت اور جاناجاتا تھا لیکن اب لوگ انہیںعلم اور ادب کی وجہ سے بھی پہچانتے ہیں اس وقت اصل پوھان ،شعراء ،ادیبان سب اعتراف کر تے ہیں کہ حمزہ بابا بیسویں صدی کے آغازپر ایک چمکتے ستارہ کی طرح رونماہوا ہے جو کلاسک اور جدید ادب میں بھی ایک حیثیت رکھتے ہیں اس کے ساتھ مصری خان خاطر آفریدی جس کو پشتو زبان کے جان کیٹس بھی کہتے ہیں۔

حمزہ بابا کے ادبی مکتب کے سب سے بڑے اور زیادہ مقبول شاعر تھے حمزہ بابا کہتے تھے کہ خاطر آفریدی کے خون میں شاعری شامل ہے پھر کہتے ہیں کہ خاطر آفریدی جب بھی کوئی غزل سناتے تھے تو سننے والے سمجھتے تھے کہ بہت زیا دہ رنگین ماحول ہے خاطر آفریدی شخصیت فکر اور فن خیبر ادب کے ایک بنیادی اثاثہ تھے وہ پشتو ادب میں جدید شاعری میں ایک اہم مقام رکھتے تھے انکی شاعری اگر ایک طرف علیحدہ صفت رکھتی ہے تو دوسری طرف خیبر غزل کی ایک مانے ہوئے استاد بھی مانا جا تاہے انکی شاعری ایک علیحدہ رنگ اور آہنگ رکھتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ نے ایک فطری شاعر پیدا کیا تھا اورکبھی بھی جس کسی کا استاد عشق بنتا ہے تو پھر دوسرے استاد کی ضرورت نہیں ہو تی ۔

خاطر آفریدی نے اگر ایک طرف غزل میں مقام حاصل کیا تھا تو دوسری طر ف انکی نظمیں بھی شاہکار ثابت ہو ئی ہیں انکی شاعری میں قومی رنگ اور موسیقیت زیا دہ تھی اس لئے گلوکار انکا کلام سنانے پر فخر محسوس کر تے ہیں اور سننے والے بھی خوب داد دیتے ہیں خاطر آفریدی کی شاعری میں محبت ،عشق ،امید خیال ،وصال ،ہجران،جذبہ ولولہ ،خیال اورفطرت بہت (غورزنگ )نمایا ںہے انکی غزل اتنی بہترین ہے کہ غزل سننے کے ساتھ ہی لوگوں کے ذہنوںمیں خاطر آفریدی نام آجا تا ہے۔

خاطر آفرید ی جیسے شاعر بہت کم پیدا ہو تے ہیں ادبی جرگہ کے ممبر باور شینواری نے بتا یا کہ خاطر آفریدی نے بہت آسان اور بہترین شاعری کی ہے عاشقانہ شاعری کی وجہ سے بہت مشہور ہو گئے تھے وہ فلسفی تصوف اور کلتوری شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ سادہ اور آسان شاعری کرتے تھے انہوں نے اخلاقی شاعری کی ہے لعل زادہ ناظر جیسے شاعر انکے استاد تھے اور حمزہ بابا سے اصلاح کیا کرتے تھے انکی غزل موجودہ وقت میں ہر کوئی شوق سے سنتا ہے بلکہ بہت زیا دہ شعراء اب بھی مشاعروں میں خاطر آفریدی کے اشعار سناتے ہیں۔

خاطر آفریدی جیسے شاعر بہت کم پیدا ہو تے ہیں اس حوالے سے مقامی شاعر صحافی خلیل جبران آفریدی نے بتا یا کہ خاطر آفریدی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے شاعر تھے انکی شاعری میں جگہ جگہ پر اس کا تذکرہ ملتا ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے (ماویل زڑہ بہ ہوم زما داسے تھک تور وی ،چی خاطر وکڑو نظر سوی کباب تہ)ایک اور جگہ وہ کہتے ہیں کہ (وستا یہ تل دیار تراخہ خاطرہ ،چہ پہ کتاب کے دے خواگہ پاتے شی)انہوں نے کہا کہ خاطر آفریدی نے کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور جوانی میں خالق حقیقی سے جاملے اس لئے اس کی شاعری میں جگہ جگہ دل سوز شاعری موجود ہے ( خدائی داپارہ پہ مزارچہ مے رادرومی ،لگ شہ ماتہ خپہ نیولے زہ بہ مڑ یم )

انہوں نے کہا کہ خاطر آفریدی کے مزار پر ایک کندہ شدہ شعر جسمیں اس کی غمگین اور پر آشوب زندگی کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے (دا ارمانونہ مے کہ گور تہ یوڑل ،نزدے مزار بہ شی لوگے راسرہ ) آفریدی کی غزل کے مختلف اشعار
(خلک چہ نخہ ولی گوری ورتہ ،تاچہ مخ پٹ کڑو نو گزار دے وکڑو)
(زہ یم چہ د زڑہ پہ سترگو ستاوینم ،،چا رنڑہ لیدلے پہ ڑنڈو سترگو)
(پہ مخہ چہ نن راغلے مخ دا سلہ پٹاوو،،کڑو غم دے راتہ جوڑچی دے پہ شاہ راوکتل)
(یوغم نہ دے چہ وکڑے خاطرہ ،،ڈیر غمونہ دی کاوا یا پہ ساڑہ زڑہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں