304

پھر نہ کہو ہمیں خبر نہ ہوئی – قاضی فضل اللہ

انسان پر تہذیب کے حوالے سے مختلف ادوار کا تاریخ میں ذکر ہے،پتھر کا زمانہ بعد ازاں قرون اولی۔پھر قرون وسطی اور بالآخر دور جدید جو جدید سے جدید تر ہوتا جارہا ہے۔اس نے ایک طرف آسائشیں پیدا کی ہیں لیکن دوسری طرف تباہی بھی لے آیا ہے۔جدت اس وقت پیدا ہوا جب پہیہ ایجاد ہوا اور مشین ایجاد ہوا ۔اب انسان میں توتجسس ہے اور وہ خوب سے خوب تر اور اس طرح آسائشوں کی طلب میں رہتا ہے ۔اس مشینی دور نے انسان کے ظاہری زندگی کو تو بہت زرق برق کردیا لیکن اس کے اندر کا سکون اور صلاحیات غارت کردیں ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو ختم کرتے ہیں آلاتاب تو انسان نہ صرف یہ کہ اس زندگی کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ اس سے اس کا چھٹکارابہت مشکل ہے بلکہ اب تو اس کی زندگی اور اس کا وقت مشین ہی کے رحم وکرم پر ہے اور مشین میں رحم وکرم تو ہوتا نہیں ایک سرپٹ دوڑ ہے ،تیز رفتار ریل گاڑی کی طرح جس میں بیٹھا ہوا شخص باہر کے ماحول سے لطف نہیں لے سکتا کہ اس کی تیز رفتاری کی وجہ سے باہر کا کوئی نقشہ اس کی آنکھوں میں بنتا نہیں بلکہ اس کو تو باہر کے سارے پودے دوسری جانب دوڑتے نظر آتے ہیں جس سے ان کا نقشہ دھندلا بن جاتا ہے یعنی وہ بس صرف گاڑی میں بیٹھا ہے اور گاڑی دوڑ رہی ہے اور گاڑی سے باہر کی دنیا سے اس نے کوئی بھی لذت نہیں لینی ۔یہ سرپٹ دوڑ والی زندگی تو ایسی ہے کہ نہ خاندان ،نہ بچے ،نہ رشتہ دار اقربا کسی سے وہ تعلق قائم نہیں ہوپاتا جو انسانیت کا خاصہ ہے ،اس لئے کہ وقت نہیںاور اب کے ماس پروڈکشن کے تصور نے تو انسان سے یہ اختیار بھی چھین لیا کہ جو چیز بنانی ہے کتنی بنانی ہے بس مشین کو یہ فیڈ کیاجاتا ہے کہ لگ جائو اور بنائواور شاید ہم اپنے تصور کو فیڈ کرچکے ہیں مشین کو بھی کہ اپنا تصور تو یہ ہے کہ بس مال پیدا کرو لیکن کتنا؟راوی خاموش ہے ۔البتہ مشین سے کہتے ہیں کہ بس بنائو۔یہ سرمایہ دارانہ نظا م کا کرشمہ ہے جس سے جدیدیت شروع ہوئی تھی تو ،لیکن بالکل آشکارا ہوگئی ۔مقابلے پر سوشلزم آیا ۔دونوں کا ٹکر شروع ہوا جس سے جدیدیت کو مزید پر لگ گئے کہ انسان اور انسانیت سے تو پہلے سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے تھے ۔اب خدا سے انکار کرو۔اس تصادم نے مغرب میں جو سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز تھا وہاں جمہوریت کو متعارف کیا اور مقابلہ صرف معیشت کے میدان میں نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں بھی تھا ۔کیونکہ ہر دو کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو انہوں نے استبداد اور آمریت کو ترویج دی ۔


ملا ًتو دونوں کا خدا عقل اور شعور تھا اور مقابلے وتصادم نے مزید ضروریات بھی پیدا کیں تو ٹیکنالوجی آگے چلی اور تصادم کے فضا میں مہلک سے مہلک ترین اسلحہ کے بنانے کا مقابلہ شروع ہوا۔اینٹلی جنس اور جاسوسی کا مقابلہ تو بہت پرانا ہے لیکن ٹیکنالوجی نے جب ٹیلی کمیونیکیشن میں مزید ترقی کی تو اگر چہ مخالف کے خلاف پروپیگنڈا بھی پرانا فن ہے لیکن ٹیکنالوجی نے اسے اب آرٹ کے ساتھ ایک سائنس کی شکل دی اور اس کے لئے تھنک ٹینک بنائے جن کا کام سازش کرکرکے اس کو پروپیگیٹ کرنا ہوتا ہے ۔
اب آج پروپیگنڈے اور سازشی تھیوریز نے دنیا کا جو حشر کردیا ہے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔فضا اتنی مکدر ہوچکی ہے کہ سچ اور حقیقت کا جھوٹ سے امتیاز کرنا بہت ہی مشکل ہے ۔اور یوں سارے لوگ ایک اضطراب میں مبتلا ہیں تدور اعینہم کالذی یغشی علیہ من الموت کہ ان کی آنکھیں چکراتی ہیں اس کی طرح جس پر موت کی وجہ سے غشی طاری ہوتی ہے ۔ایسے میں اس بندے کو کچھ نہ دکھائی دیتا ہے نہ وہ کسی چیز کا کوئی نقشہ پکڑ سکتا ہے ۔نہ اس کو کسی چیز کی سمجھ آتی ہے ۔سوشل میڈیا اس چیز کی معراج ہے جو کسی کے کنٹرول میں ہی نہیں او رپھر میڈیا پر معلومات اتنی ہیں کہ فیلڈ کا مطلوبہ علم رکھنے کے بغیر ،اس کا مطالعہ اور معلومات کی بے سمجھ بھرمار نے تو اس کو دو آتشہ کردیا ہے ۔کیونکہ غشی کے دورے جب پڑتے ہیں جو تقریبا دیوانگی کی حالت ہوتی ہے تو یہ تو دیوانے کو چھرا تھمانا ہے جس سے وہ اوروں کو تو ہلاک کرے گا ہی خود کو بھی ہلاک کرجائے گا ۔بالفاظ دیگر اضطراب اور ابہام کے اس ماحول میں آج کے انسان ایک بے ربط اور بے ہنگم ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں جن میں یہ مذکورہ دیوانگی بھی ہے اور اگر اس ہجوم کو ضبط میں نہیں لایا گیا اور ان کو کسی ذی ہوش وعقل راہنما کی راہنمائی میسر نہ آئی تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ ہجوم اگر چل پڑا تو کیا ہوگا ؟کیونکہ آج کے سیاسی رہبران بھی سیاست کو بطور پیشہ بلکہ انویسمنٹ اپنا چکے ہیں ،تبھی تو اس میں ارث جاری ہے ۔کوئی نظریاتی ،تحریکی اور تنظیمی جدوجہد تو ہونہیں رہی بس سیاسی جدوجہد ہورہی ہے او ر مذکورہ دوڑ میں اگر کوئی فرزانہ یہ نظریاتی اور تنظیمی وتحریکی عمل کرے بھی تو وہ تو صدا بصحرا ہے حالانکہ اس سے سیاست کا ذوق پیدا ہوتا ہے جبکہ مادیات کے حصول کے لئے سیاست کا شوق پیدا ہوتا ہے اور تبدیلی صاحب ذوق لاسکتا ہے صاحب شوق نہیں۔تربیت یافتہ لوگ نظریات میں سخت لیکن تعلقات میں نرم ہوتے ہیں کہ غم جاناں اور غم دوراں دونوں کو سینے سے لگائے ہوتے ہیں ۔ان کے علم وفہم نے ان کو اس سے روشناس کرایا ہوتا ہے ۔صرف علم بندے معلومات دے دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ تربیت اس میں عملیت کا جذبہ پیدا کردیتا ہے،سو جو آج ابہام اور اضطراب کا ماحول ہے یہ تو ایک گھٹن ہے اور گھٹن تو ہمیشہ گھٹن نہیں رہ سکتا وہ تو ایک لاوا بن کر نکل پڑتا ہے اور پھر وہ لاوا جو کچھ کرتا ہے تو نتیجہ صرف اللہ کو معلوم ہے لیکن پتہ نہیں ہمیں کیوں ہوش نہیں آتا ۔
میں عوام کی بات نہیں کرتا ،مختلف میدانوں کے بزعم خویش رہبران کی بات کرتا ہوں چاہے وہ مذہبی رہبر ہوں ،سیاسی رہبر ہوں یا معاشرتی رہبر ہوں،کہ حالات بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں اور کورونا نے تو اس کو پر لگائے ہیں ۔اس نے ہر میدان کے ماہرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ یہ ختم ہوگا اور خدا کرے جلد از جلد ختم ہو ،تو کیا صورت بنے گی ؟سو آج سے اپنا وطیرہ تبدیل کرنا ہے ،زعم سے باہر نکل آنا ہے ،انسان بننا ہے ورنہ پھر نہ کہو ہمیں خبر نہ ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں