انٹریو: کاشف الدین سید
سابق صدر غلام اسحاق خان کی نواسی، ممتاز سیاسی شخصیت عرفان اللہ مروت کی صاحبزادی اور بلور خاندان کی بہو ثمر ہارون بلور خیبر پختونخوا کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات ثمر ہارون بلور کراچی میں پیدا ہوئیں اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ 1995 میں ان کا رشتہ صوبے کے ممتاز سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد بلور کے بیٹے بیرسٹر ہارون بلور سے طے ہوا اور شادی ہوئی۔ ثمر ہارون بلور کے دو بچے ہیں اور وہ ایک گھریلو خاتون کی حیثیت سے زندگی بسر کرہی تھیں کہ 10جولائی 2018کو ایک انتخابی جلسے کے دوران ہارون بلور خود کش حملے میں شہید ہوگئے۔ اس سے قبل ان کے والد بشیر احمد بلور بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوچکے تھے۔ ہارون بلور جس نشست پر صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ وہ الیکشن ملتوی ہوا اور پھر ثمر ہارون بلور عملی سیاست میں آگئیں ۔ اپنے شہید شوہر کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے پر امیدوار نامزد ہوئیں اور بر سراقتدار پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر ایوان میں پہنچ گئیں۔ عام نشست پر منتخب رکن صوبائی اسمبلی بننے والی واحد خاتون اس وقت صوبائی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے اطلاعات کی چیئر پرسن ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ پارٹی کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات بھی ہیں۔ ثمر ہارون بلور نے روزنامہ آئین کے دفتر کا دورہ کیا اس موقع پر پارٹی کی میڈیا کمیٹی کے ارکان حامد طوفان ، میاں بابر شاہ کاکاخیل اور تیمور باز خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر ثمر ہارون بلور نے روزنامہ آئین کو خصوصی انٹرویو دیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
سوال: آپ کا تعلق سیاسی خاندان سے تو ہے مگر آپ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا ہے کیا محسوس کررہی ہیں؟
جواب: میری آنکھ ایک سیاسی خاندان میں کھلی ہے ،اپنے والد کے گھر میں بھی اور اپنے میکے اور سسرال میں ،میں نے سیاست ہی دیکھی ہے ، ہمارے گھر میں ہمیشہ سیاسی ماحول رہاہے سیاسی باتیں رہی ہیں لیکن جب خود الیکٹ ہوکر آئی اورجب یہ بوجھ میرے کندھوں پرپڑا تو سب سے زیادہ میں احساس ذمہ داری محسوس کررہی ہوں،کیونکہ مجھے اس چیز کابہت احساس ہے کہ جو میرے حلقے کے عوام ہیں انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار کیخلاف مجھے ووٹ دیا جس وقت انہوں نے مجھے الیکٹ کیا تو ان کو پتہ تھا کہ میں اپوزیشن کے بینچ پر بیٹھوں گی،یہ ایک منفرد الیکشن تھا کیونکہ میں ایک خاتون تھی اور ہماری جو الیکٹڈ سیاست ہے جس میں مردوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور میرے جو مخالف تھے ان کی ٹیگ لائن یہ تھی کہ آپ ان کو ووٹ دیکر اپنا ووٹ ضائع کرینگے تو میں نے اس وقت ٹھان لی تھی کہ اگرمیں الیکشن جیتوں گی تو میں عوام کے ووٹ کو ضائع نہیں ہونے دونگی اور میں ہر کوشش کررہی ہوں کہ بہتر سے بہتر طریقے سے عوام کی نمائندگی کروں،ان کے حقوق کیلئے آواز اٹھائوں، ہاں میں حکومت میں نہیں ہوں اسلئے مجھے بہت ساری مشکلات کا سامنا رہتاہے لیکن میں سوچتی ہو ںکہ آج لوگوں میں اتنا سیاسی شعور آگیا ہے کہ وہ پولیٹیکل ویکٹمائزیشن میں سمجھتے ہیں اوروہ صحیح اور غلط بندے کو بھی پہچانتے ہیں
سوال : آپ کے والد محترم الیکشن لڑتے تھے ، سسرال خاندان بھی سیاست میں تھی کبھی سوچا تھا کہ عملی سیاست میں آئیں گی اور الیکشن لڑنے کے بعد پارلیمنٹ میں پہنچیں گی ؟
جواب: گھر میں اس پر ہلکی پھلکی کبھی کبھی ہنسی مزاح میں بات ہو جاتی تھی مگر میں تو گھر میں زیادہ تر وقت اپنے بچوں کی پرورش پر لگارہی تھی پھر جب ہارون بلور شہید کا سانحہ ہمارے ساتھ ہوگیا تواس کے بعد ہمارے گھر میں کوئی مرد رکن ممبر نہیں تھا ،میرے دونوں بچوں میں غم وغصہ تھا لیکن اس غم وغصے کو چینلائز کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ ہم کس پر الزام لگائیں کس کیخلاف ایف آئی آر کاٹیں ،جس کا آج تک ہمیںصحیح جواب نہیں ملا ،تو میں نے سوچا کہ اس غم کو کم کرنے کیلئے ہم شہید ہارون بلور کے مشن کو جاری رکھیں ، میرے خیال میں پاکستان میں سیاست باپ بیٹے یعنی مرد ممبر میں ہواکرتی ہے ہماری بہت انفرادی قسم کی سیاست یہ ہے کہ حلقہ میں اور میرا بیٹا دانیال ملکرسنبھالتے ہیں ، میرے خیال میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ ایک ماں اور ایک بیٹا حلقے کو سنبھال رہے ہیں ۔
سوال : آ پ نے بیٹوں کے بارے میں بات کی اور خاص کر دانیال کی ، جب ہارون بلور شہید ہوئے تو عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن بہت زیادہ اشتعال میں تھے اور ہم نے دیکھا کہ دانیال ان مشتعل کارکنوں کو کنٹرول کررہے تھے تو یہ جو حوصلہ تھا یہ آ پ کی ہدایت تھی یا ان کا اپنا فیصلہ تھا ؟
جواب: اس وقت ہم دونوں ایک دوسرے سے ملے بھی نہیں تھے ،ہم اس کے بہت بعد ملے ہیں دانیال نے جس گھر میں پرورش پائی تھی وہ شہید بشیر بلور کا گھر تھا اور اس نے اپنے بڑوں سے ہمت ، حوصلہ اورصبریہ باتیں ان کی عملی زندگی سے سیکھی تھیں، بعد میں ہم نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کیسے یہ محسوس ہوا تو کہتے میں نے ایک سیکنڈ کیلئے آنکھیں بند کرکے یہ سوچاکہ جب دادا بابا کا بلاسٹ ہوا تو میرے والد نے اس وقت پر کیا سٹینڈ لیا تھا تو میں نے سوچا کہ میں بھی وہی سٹینڈ لوں گااور میں آگ لگانے نہیں دوں گا میں توڑ پھو ڑ نہیں ہونے دوںگا اس چیز سے مجھے آج تک بڑی خوشی ملتی ہے کہ چھوٹی سی عمر میں اتنا صحیح فیصلہ لیا۔
سوال: یہ جو سیاست میں آنے کا اور الیکشن لڑنے کا فیصلہ تھا یہ آپ کے خاندان کا متفقہ فیصلہ تھا اور کیا والدصاحب کی حمایت بھی حاصل تھی ؟
جواب: اس فیصلے میں میرے والد اور میرے بیٹا کا اہم کردار تھااور جب وہ ہمارے خاندان کے سربراہ حاجی غلام بلور کے پاس گئے تو حاجی صاحب بھی راضی ہوگئے، باقی فیملی یہ نہیں سمجھتی تھی کہ میں یہ بات کر پائوں گی ، اس وقت ہمارے خاندان میں ایک بات تھی کہ عورت کو کوئی ووٹ نہیں دیگا، اس کی عمر کم ہے مگرخاندان کے جو تین بڑے ستون ہیں انہوں نے مجھے سپورٹ کیا ۔
سوال: عوامی نیشنل پارٹی کا ویمن ونگ نہیں ہے آپ کو سیکرٹری اطلاعات بنایا گیا ہے یہ ایک چیلنجنگ پوزیشن اور سخت قسم کا ٹاسک نہیں ہے آپ کیلئے؟
جواب : ٹاسک مجھے ایمل ولی خان صاحب نے حوالہ کیا ہے اور یہ ان کی سوچ ہے کہ ان کے پاس پارٹی میں اتنے تجربہ کار مرد موجود ہیںانہوں نے مجھے چنا اور میں خود ڈرتی تھی کیونکہ مجھے اس چیز کا تجربہ نہیں تھا ،مجھے تو سیاست کا بھی اتنا تجربہ نہیں تھا تو پھر میڈیا کو ہینڈل کرنا اور پارٹی کے بیانیہ کو آگے لے کرجانا اور اس طریقے سے آگے لے کر جا نا کہ نوجوان نسل کیساتھ اس کو ملائیں لیکن ایمل ولی خان کا یہ اعتماد تھا کہ وہ جب دوسری مرتبہ میرے پاس تشریف لے کرآئے پہلی بار میں نے انکار کیا تھا لیکن دوسری مرتبہ میں انکو انکار نہ کرسکی
سوال: ان کا جذبہ کیا تھا ،کیوں ایمل ولی خان صاحب آپ کو سیکرٹری اطلاعات بنانا چاہتے تھے ؟
جواب: یہ تو آپ کسی دن ان سے پوچھئے گا،میرے خیال میں عوامی نیشنل پارٹی میں خواتین کیلئے بہت جگہ اور عزت ہے ، ہماری پارٹی کو بیگم نسیم ولی خان نے بہت عرصہ اچھے طریقے سے چلایا، ایمل ولی خان اپنی پارٹی کی دنیا کوایک تعلیم یافتہ پختون کی تصویر دکھانا چاہتے تھے اور یہ دکھانا چاہتے تھے کہ جو منفی تصویر بنی ہے اور عوامی نیشنل پارٹی کیخلاف جو پروپیگنڈا بناہوا ہے وہ اب ہم سیکنڈری لیڈر شپ کو پروموٹ کرکے اس پروپیگنڈا کو توڑنا چاہتے ہیں۔
سوال : اب وہ دور نہیں ہے کہ سیکرٹری اطلاعات ایک پریس ریلیز جاری کرے اور اخبارات میں چھپ جائے ، اس جدید دور میں جو کہ الیکٹرانک میڈیا میں ٹی وی ریڈیو اور اس کیساتھ سوشل میڈیا میں فیسبک ٹوئٹر ہے اور دیگر ابلاغ کے ذرائع ہیں اس میںکام کتنا مشکل ہے اور آپ نے جتنا کام کیا ابھی تک اس سے مطمئن ہیں؟
جواب: کام تو وہ ہو جس سے اور لوگ مطمئن ہو ں، اپنے کام سے میں مطمئن ہو ںیا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،لیکن الحمداللہ پارٹی کے لوگ کام سے مطمئن ہیں میں نے تو سب سے پہلے ایمل خان سے مشاورت سے ایک انفارمیشن کمیٹی بنائی کیونکہ میں نہ صرف ایک ایم پی اے ہوں بلکہ میں ایک اکیلی گھریلو خاتون بھی ہوں یہ چیز میرے ٹائم کا کچھ حصہ خواہ مخواہ لیتی ہے اور لینا بھی چاہئے میرے بچوں کا اور میری ساس کا میرے ٹائم کے اوپر اپنا حق ہے تو میری انفارمیشن کمیٹی کے جو ممبر ہیں میں نے اور ایمل ولی خان نے ملکرہینڈ پک اپ کئے ہیں ہم اب ایک ٹیم ہیں اور ٹائم کو مل بانٹ کر کام کرتے ہیںہم ہفتہ وار پریس کانفرنسز کرتے ہیںاس سے پہلے ہم ضرور آپس میں بیٹھ کر برین سٹارمنگ اور آئیڈیا شیئر کرتے ہیںجو پارٹی کے مختلف ضلعوں میں لوگوں کو مشکلات ہوتی ہیںوہ ہم سے ریچ آئوٹ کرتے ہیں،سوشل میڈیا کا میرا ایک الگ سیل کام کررہاہے جس کو میں بذات خود مانیٹر کررہی ہوں
سوال: آپ ایک ماں بھی ہیں خاندانی زندگی ہے آپ جنرل نشست پر منتخب ممبر صوبائی اسمبلی ہیں پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات ہیں تو کس طرح منیج کرتی ہیں؟
جواب: بھا گ دوڑ کر کے ، اپنی فیملی اور جو میری صوبائی انفارمیشن ٹیم ہے،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کو بہت کریڈٹ دونگی کیونکہ کچھ چیزوں میں وہ مجھے بہت چھوٹ دیتے ہیں جو پارٹی کے دورے ہوتے ہیںجس میں باقی پارٹی کی ساری کابینہ جاتی ہے وہ مجھے اس سے اجازت دیتے ہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں وہ ٹائم اپنے بچوں کو دینا پسند کروںگی اور گھر میں میری ساتھ میری ساس بہت تعاون کرتی ہیں کیونکہ اگر وہ میری ساتھ میرے گھر کو نہ سنبھالیں اور بچوں کو نہ دیکھیں تو پھر میں اکیلے یہ سب کچھ نہ کرسکتی ۔
سوال : تقریباً دوسال کا عرصہ گزرا ہے آ پ ایک الیکٹڈپشاور کے ایک اہم حلقے سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں تو کیا آپ ابھی تک اپنے حلقے کیلئے کچھ کرسکی ہیںکوئی میگا پراجیکٹ پر کام شروع کیا ہے ؟
جواب: میگا پراجیکٹ چھوڑ کر اپنے حلقے میںفی الحال اپنی مرضی سے ایک اینٹ بھی نہیں لگاسکی ہوں ، اب تک میرے حلقے کیلئے مجھے کوئی ترقیاتی فنڈ نہیں ملا ،پشاور میں جو عوامی نیشنل پارٹی کے ایم پی ایز ہیں کسی کو بھی نہیں ملے ، ہمارے علاقوں میں جو جابز ہیں وہ ایم این ایز کررہے ہیں، جو سکیمیں ہیں وہ کاغذات پر تو ہیں اس پر میں جھوٹ نہیں کہہ سکتی مگر وہ کاغذات سے نکل کر عملی طورپر ہونگی یا نہیں ہونگی وہ میں آپ کو کہہ نہیں سکتی لیکن ان دو سال کے دور میں اربن پشاور میں کسی کو کوئی مسئلہ ہوا ہے چاہے وہ تاجر برادری ہو ، وہ اساتذہ ہوں ،وہ نانبائی ہوں،وہ پولیس والے ہوں،ان ساروں نے مجھ سے رجوع کیا ہے اور میں یہ بات بہت خوشی سے کہہ سکتی ہوں کہ میں نے پھر ان ایشوز بھر پور طریقے سے اٹھایا ہے اور ان کو حل کیا ہے ،جو خدمت میں کرسکتی ہوںجو ٹائم میں دے سکتی ہوں دے رہی ہوں،کیونکہ اربن پشاور میں باقی اراکین اسمبلی تحریک انصاف کے ہیں اوران کی زبانیںسی دی گئی ہیں وہ شہر کے لوگوں کے ایشوز پر بات نہیں کرسکتے تو اب شہر کے لوگوں کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ ہر چھوٹے اور بڑے مسئلے پر بات کرنے کیلئے مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔
سوال: شہر کے مسائل پر شہری آپ کیساتھ رجوع تو کرتے ہیں لیکن حکومت آپ کی بات مانتی نہیں ،آ پ کی سفارش کوتسلیم نہیں کیا جاتا،تو آپ نہیں سمجھتیں کہ آ پ کی سیاسی وابستگی کیوجہ سے آپ کے حلقے کے عوام متاثرہورہے ہیں؟
جواب: یہ بات ضرور ہے ،میرے حلقے کے عوام کو متاثر کیا جارہاہے اور اس بات کو میں ہر فورم پر اٹھاتی ہوںکہ یہ لوگوں کا جمہوری حق ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں کسی کو الیکٹ کریںاپنی مرضی کا ،اگر یہ غلط ہے تو پھر کسی کو الیکشن یا بائی الیکشن کرانا نہیں چاہئے بس ایک وزیراعظم کا الیکشن کرانا چاہئے اور پھر سارے کام بھی ان کی ٹیم کرے گی ۔
سوال: عوامی نیشنل پارٹی اس صوبے کی بڑی جماعت ہے ،حکومت میں رہ چکی ہے اور اپوزیشن میں بھی ،کرپشن کے الزامات اورشدید تنقید کی زد میں بھی رہی ہے ،اس وقت یہ محسوس کیا جارہاہے کہ متبادل قوم پرست جماعتوں کو سامنے لایاجارہاہے عوامی نیشنل پارٹی اس چیلنج کو کیسے فیس کریگی؟
جواب:عوامی نیشنل پارٹی سوسال پرانی پارٹی ہے یہ ہمار ا پہلا اور آخری چیلنج بھی نہیں ہوگا، ہماری پارٹی اور دوسری پارٹیوں میں یہ فرق ہے کہ یہ نظریاتی پارٹی ہے جس کی سب سے بڑی مثال میںہو ں ، میں نے پیارے کھو دیئے ہیں،خون بہادیئے ہیںلیکن پارٹی کو نہیں چھوڑا،جن قوم پرست لوگوں کو سامنے لایا جارہاہے وہ ایک پارٹی نہیں ہیں وہ ایک تحریک ہیں ،تحریک کا وہ سٹرکچر نہیں ہوتا جو پارٹی کا ہوتاہے تحریک کبھی نہ کبھی ایسی حرکات کر بیٹھتی ہے کہ جس سے وہ اور ہمارے ادارے تصادم میں آجاتے ہیں ہم ایک سیاسی جماعت ہیں ہمار ا ایک منظم اور سٹرکچرڈ آئین ہے ہم پر چاہے جتنا دبائو آجائے ہم اپنے آئین سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے ۔ہم زبردست کام کررہے ہیں اپنی سیکنڈری لیڈرشپ کو ابھاررہے ہیں، ہم اپنی ضلعی سطح پر تنظیم سازی پر کام کررہے ہیںتاکہ بلدیاتی الیکشن ہوں توعوامی نیشنل پارٹی دو ماہ کے نوٹس پر تیار ہوگی ۔
سوال: کرپشن کے الزامات کیساتھ ساتھ اب عوامی نیشنل پارٹی پر دہشتگردی کے الزامات بھی سامنے آگئے ہیںوزیرداخلہ کا بیان آپ کے سامنے ہے ؟
جواب: پہلے میں کرپشن کے الزامات پر بات کردوں ، کرپشن کے الزامات الزامات ہی رہ گئے نا، آج کل نیب گردی کا ایک زمانہ چل رہاہے تو عوامی نیشنل پارٹی کے وہی بڑے ہیں وہ ہمارے لیڈر ہیں،میرے ساتھ جو انفارمیشن کمیٹی کے ارکان آئے ہوئے ہیں دیکھئے ان کے سیکنڈ ، تھرڈ جنریشن پارٹی میں ہے تو عوامی نیشنل پارٹی کے کونسے لوگ پانامامیں ایکسپوز ہوگئے ، کونسے لیڈر ہیں جن کی جائیدادیں نکلی ہیں وہ صرف ایک زبانی جمع خرچ اور پروپیگنڈا تھاجو ہماری اس وقت کی حکومت اور پارٹی کی جو قیادت تھی وہ اچھے طریقے سے ٹیکل نہ کرسکے ،یہ ہمارا اپنا ایک فیلئرتھا جس کو بعد میں ہم نے الیکشن میں بھگتاہے ۔ وزیرداخلہ کا جوبیان ہے اس پر میں کیا بیان کروں، وہ ایک صدمہ دینے والابیان تھا ، عوامی نیشنل پارٹی اپنے شہداء پر فخر محسوس کرتی ہے ہم ان کو اون کرتے ہیںاور ہماری پارٹی کانہ رہ کر بھی اثاثہ ہیں ہر پارٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہر ضلع میںہمارے پاس اتنے شہداء ہیں، یہ دہشت گردی کیخلاف جنگ تھی ،یہ جنگ عسکریت پسندوں اور پاکستان کے درمیان تھی ،ہم پاکستان کے عوام کی آواز بن کے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوئے ہیں ہم نے ہمیشہ اپنے آپ کو گنوایا ہے لیکن عوام کو ہم نے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے ۔
سوال: حکومت کیخلاف ایک تحریک اس وقت میدان میں ہے اور عوامی نیشنل پارٹی اس کا حصہ ہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان صاحب نظر نہیںآرہے ہیں اس تحریک میں؟
جواب: عوامی نیشنل پارٹی کے جو مشر اور سربراہ اسفندیارولی خان ہیں ان کی طبیعت کافی عرصے سے ناساز ہے اور اسلئے جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بن رہی تھی تو جو پارٹی کی روزمرہ کی سرگرمیاں ہیں وہ بھی اور پی ڈی ایم کے افیئرزیہ دونوں امیر حیدر خان ہوتی کو سونپ دیئے گئے ہیں،جو بڑے فیصلے ہیں وہ امیر حیدر خان ہوتی مشر اسفندیار ولی سے رابطہ کرتے ہیںاور تمام مرکزی فیصلے مشاور ت سے حیدر ہوتی کررہے ہیں
سوال:22 نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہونے جارہاہے کیا تیاری ہے عوامی نیشنل پارٹی کی کیونکہ یہاں پر پی ڈی ایم میں شامل دوسری جماعت جے یو آئی (ف)وہ بھی اس جلسے کو بھی کیش کرنا چاہے گی ،عوامی نیشنل پارٹی کیلئے بھی ایک چیلنج ہے تو کیا تیاریاں ہیں؟
جواب: تیار یاں ہماری بھرپور اور مکمل ہیں ہم نے پورے سال تنظیم سازی پر بھر پور توجہ دی ہے ۔22 تاریخ کو تھریٹس ، ڈرانے دھمکانے کے باوجودآپ دیکھیں گے کہ پی ڈی ایم کا بھی ایک پاورشو ہوگا اور اس کیساتھ عوامی نیشنل پارٹی کا بھی پاور شو ہوگا،پشاور وادی تاریخی طور پر عوامی نیشنل پارٹی کا قلعہ رہی ہے اور ہم 22 نومبر کو یہ بات ثابت کریں گی کہ یہ ابھی بھی ہمارا پاور بیس ہے ۔
سوال: صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے تھریٹس کے پیش نظر جلسہ ملتوی کرانے او رمذاکرات کی پیشکش کی ہے اس حوالے سے کیا کہیں گی؟
جواب: جس شہر میں جلسہ ہوتاہے اس شہر میں خطرہ ہوجاتاہے اور اس شہر میںکروناہوجاتاہے ، جلسہ ختم ہوجاتاہے کورونا بھی ختم ہوجاتاہے ، شوکت یوسفزئی کی زبانی بات تھی اگر انہوں نے خلوص نیت سے مذاکرات کا ارادہ ہے تو ان کو چاہئے کہ تمام پارٹیوں کو ایک خط بھیجیںاور صوبائی قائدین سے بات کریں۔
سوال: پی ڈی ایم کا جو مطالبہ ہے کہ حکومت کو ہٹایاجائے اور نیاالیکشن کرایا جائے تو کیا عوامی نیشنل پارٹی الیکشن کیلئے تیارہے ؟
جواب ،: بالکل میں نے پہلے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی دو ماہ کے نوٹس پر الیکشن کیلئے تیارہے ۔
سوال : فرض کریں اگر مطالبہ تسلیم ہوجاتاہے اور الیکشن کے سیناریو بن جائیں توکوئی امکان ہے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تمام سیاسی جماعتیں اکٹھے ہوکر الیکشن لڑیں ؟
جواب : یہ بات قبل ازوقت ہے کہ اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہواابھی پی ڈی ایم ایک پوائنٹ ایجنڈا پر متفق ہے کہ ہم اس وزیراعظم سے چھٹکارا چاہتے ہیںاور فری اینڈ فیئر الیکشن کروانا چاہتے ہیں، اگر آپ پی ڈی ایم کے جلسوں یا قائدین کی تقریریں سنیں تو جلسوں میں بھی یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ہم الیکشن ایک دوسرے کیخلاف لڑینگے ، تحریک انصاف کی قیادت میں آنے کے بعد سیاست میں تلخی اور ایک تقسیم آئی ہے اس کو ختم کرینگے، یہ جمہوریت ہے ہم اپنا نظریہ پیش کرینگے دوسرا اپنا نظریہ پیش کرے گا، عوام کو جو صحیح لگے لگا اس کو ووٹ دینگے ، اس میں ہمیں اتنے آگے جاکے ذاتی باتیں نہیں کرناچاہئیں کہ آپس میں لوگوں کی دشمنیاں بن جائیں ۔
سوال : آپ کیا سمجھتی ہیں کہ خیبر پختونخوا صوبے میں خواتین کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ کیا ہے ؟
جواب: خیبرپختونخوا کی خواتین اور عوام کا مہنگائی اور بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے، بے روزگاری کیوجہ سے گھروں میں سب پر دبائو پڑ رہاہے ، بہت افسوس کی بات ہے کہ جو حکومت ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدہ کرکے آئی تھی وہ لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں چاہے صحافی ہوں، اساتذہ ہو ںیا یونیورسٹی کے ملازمین ہو ں،میرا دل بہت خفا ہوجاتاہے کیونکہ میں نے والدین کی مشقت اور بچوں کو مشکل حالات میںتعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھاہے جس نے ڈگری اور مہارت حاصل کی ہے مگر اب ملک میں ان کیلئے نوکریاں نہیں ہیں ,عوامی نیشنل پارٹی کے مشر اور سربراہ اسفندیارولی خان ہیں ان کی طبیعت کافی عرصے سے ناساز ہے، جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بن رہی تھی تو جو پارٹی کی روزمرہ کی سرگرمیاں ہیں وہ بھی اور پی ڈی ایم کے افیئرزیہ دونوں امیر حیدر خان ہوتی کو سونپ دیئے گئے ہیں
تحریک انصاف کی قیادت میں آنے کے بعد سیاست میں تلخی اور ایک تقسیم آئی ہے اس کو ختم کرینگے، یہ جمہوریت ہے ہم اپنا نظریہ پیش کرینگے دوسرا اپنا نظریہ پیش کرے گا، عوام کو جو صحیح لگے لگا اس کو ووٹ دینگے ، اس میں ہمیں اتنے آگے جاکے ذاتی باتیں نہیں کرنی چاہئیں کہ آپس میں لوگوں کی دشمنیاں بن جائیں جس شہر میں جلسہ ہوتاہے اس شہر میں خطرہ ہوجاتاہے اور اس شہر میںکروناہوجاتاہے ، جلسہ ختم ہوجاتاہے کورونا بھی ختم ہوجاتاہے ، شوکت یوسفزئی کی زبانی بات تھی انہوں نے خلوص نیت سے مذاکرات کا ارادہ کیاہے تو ان کو چاہئے کہ تمام پارٹیوں کو ایک خط بھیجیںاور صوبائی قائدین سے بات کریں