دور جدید میں ڈپریشن ایک بڑھتا ہوا مرض ہے جس کے علاج سے پہلے ہی انسان یا تو خود کو قتل کر لیتا ہے خودکشی کی صورت میں یا پھر پاگل پن کی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے ۔
ڈپریشن نفسیاتی امراض کی ایک قسم ہے جو کے انسان کو رفتہ رفتہ زندہ ہی قبر میں پہنچا دیتا ہے ڈپریشن مرد ،عورت ، جوان ،بوڑھے اور بچے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے ۔ کوئی بھی رنگ ، ذات پات ، مذہب کا انسان اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا ۔ غریب سے لیکر اعلیٰ عہدے دار بھی اس سے بچ نہیں سکے ۔ ڈپریشن کا مرض آہستہ آہستہ انسان کو اپنی چنگل میں پھنسا لیتا ہے انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ انسان خود کو ایک پنجرے میں قید پرندے کی طرح محسوس کرتا ہے جس سے نکلنا نا ممکن ہوتا ہے۔اپنے ارد گرد کے لوگوں پہ نظر دہرائی جائے تو بہت سے ایسے لوگ نظر آئے گے جو لوگوں سے جنگ لڑنے کی بجائے خوش مزاجی کا لبادہ اوڑھے تنہا ہی ڈپریشن سے جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ آخر اس مرض سے لڑتے لڑتے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں ۔
دنیا کا ایک تہائی حصہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔ مردوں کی نسبت عورتوں میں ڈپریشن کی شرح زیادہ ہے ۔ ڈپریشن کسی واحد فرد کا مسئلہ نہیں ہے اس لیے اس کی آگہی کے متعلق مجموعی طور پہ بات کرنا ہو گی ۔ حال ہی میں نظر دوہرائیں تو بہت سی مشہور شخصیات نے اس مرض کے ہاتھوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے خود کشی کو گلے لگا یا ۔ڈپریشن کی بہت سی اقسام ہیں ۔دل کا اداس رہنا ، یہ اداسی اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان کا کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا ۔
کسی محفل اور سرگرمی میں انسان کی دلچسپی نہیں رہتی۔ عام اداسی میں جب دل کے اداس ہونے پر انسان کو جب خوشی ملتی ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے لیکن ڈپریشن کے دوران انسان کو خوشی ملنے کے باوجود انسان خوش نہیں ہوتا ۔روز مرہ کی سرگرمیوں میں کمی آ جاتی ہے انسان کا کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا اس کی روٹین کے کام بہت حد تک متاثر ہو جاتے ہیں جیسا کہ کوکنگ کرنا ، باغ بانی کرنا ، گھر کو سجانا ، آفس کے کاموں میں عدم دلچسپی ، دوست احباب سے میل میلاپ، سب کچھ ختم ہو جاتا ہے ۔اس مرض کے دوران نیند بھی کافی حد تک متاثر ہوتی ہے یا تو مریض کی نیند بہت کم ہو جاتی ہے ۔ نیند کے دوران بار بار آنکھ کھل جاتی ہے ، رات گھنٹوں نیند کا انتظار کرنا پڑتا ہے یا پھر انسان مقررہ وقت سے پہلے ہی اٹھ جاتا ہے ۔ اس مرض میں نیند کی زیادتی بھی ہو جاتی ہے گھنٹوں سوئے رہنے کے باوجود انسان خود کو ترو تازہ محسوس نہیں کرتا ۔جسم میں تھکن محسوس ہوتی ہے ، تھوڑا سا کام کرنے کے بعد گھنٹوں تھکن سے بدن چور ہوتا محسوس ہوتا ہے ۔
طاقت کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔بھوک بھی کافی حد تک متاثر ہوتی ہے یا بھوک کی زیادتی ہو جاتی ہے یا پھر بھوک مکمل طور پر مٹ جاتی ہے ۔ بھوک کم ہونے سے وزن میں کمی ہو جاتی ہے جس سے انسان لاغر دکھائی دیتا ہے اس کے برعکس بھوک کے بڑھ جانے سے وزن میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے ،جوکے بہت سی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے ۔ انسان کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے دوست احباب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ نوکری چھوٹ جاتی ہے انسان خود کو مایوسی کے گڑھے میں گرا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ان سب سے نمٹنے کی صلاحیت مٹ جاتی ہے تو ہوتا کیا ہے انسان خودکشی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ڈپریشن میں عموماً سائیکالوجیکل اور بائیولوجیکل دونوں عوامل موجود ہوتے ہیں ۔بائیولوجیکل میں ہمارے دماغ میں خاص قسم کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو انسانی کارکردگی ، مزاج میں توازن اور خوشی کو محسوس کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ جونہی ان کی مقدار انسانی وجود میں کم ہو جاتی ہے تو انسان ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔سائیکالوجیکل میں زندگی میں آنے والے نا خوشگوار واقعات سر فہرست ہیں جیسا کے بے روزگاری ، نوکری کا نہ ملنا ، محبت میں ناکامی ، تعلیمی قابلیت میں کمی وغیرہ شامل ہیں ۔ لیکن ڈپریشن کا علاج کافی حد تک ممکن ہے پیروں فقیروں سے تعویذ گنڈے سے پرہیز کریں ۔ نفسیاتی ماہرین سے رجوع کریں ۔ ادویات کا مناسب استعمال کریں ۔ اور گھر کے ماحول کو خوشگوار بنایا جائے ایسے لوگوں سے دور رہیں جو باتوں میں زہر گھول کے رکھتے ہیں اور بات کرتے ہی یہ زہر دوسروں کے دماغ میں ڈال دیتے ہیں ۔
بات چیت کا طریقہ اختیار کریں کوئی ایسا دوست یا قریبی رشتہ دار جس سے بات شیئر کرتے رہا کریں تاکہ ذہن میں آنے والے ہیجان کو قابو کیا جا سکے ۔ اوور تھینکنگ (زیادہ سوچنے )سے پرہیز کریں ۔اس کے لیے اسلامی طریقہ اختیار کریں فارغ اوقات میں اردگرد کے لوگوں پہ دھیان دینے کی بجائے قرآن یا درود شریف کا ورد زبان پرجاری رکھیں۔ لاپرواہی سے اجتناب کریں اور ایسے جملوں کا استعمال اپنی زندگی سے نکال دیں جس سے مایوسی ٹپکتی ہو ۔ اپنے والدین سے حسن سلوک کریں ان کی دعائیں سمیٹیں ۔ طنز و مزاح پہ صبر کا مظاہرہ کریں ۔
صبر اور نماز سے مدد حاصل کریں صحت مند طرز زندگی اختیار کریں اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں ۔ مثبت سوچیں مثبت رہیں ۔
300