319

کارکردگی، اہلیت کا اصل پیمانہ۔۔۔؟؟ – ڈاکٹر ایم عبداللہ تبسم

قومی معیشت جو موجودہ دورِ حکومت کے آغاز ہی سے بیشتر حوالوں سے انحطاط کا شکار رہی، پچھلے چھ ماہ کے دوران کورونا کی عالمی وبا اور ملک کے اندر اور باہر ہونے والا لاک ڈاو?ن اُسے بالکل ہی زمیں بوس کرنے کا باعث بن گیا۔ اِن حالات میں معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت محتاجِ بیان نہیں۔ وفاقی حکومت نے اسی صورتحال کے پیشِ نظر اپریل کے اوائل میں تعمیراتی شعبے کیلئے ایک خصوصی پیکیج متعارف کرانے کا عندیہ دیا تھا جس کا باقاعدہ اعلان وزیراعظم نے گزشتہ روز اس مقصد کیلئے تشکیل دی گئی قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد اپنے خطاب میں کیا، ہاوسنگ و تعمیرات کے شعبے کی ترقی کیلئے خصوصی سہولتوں کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نیا پاکستان ہاو?سنگ اسکیم کیلئے تیس ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت پہلے ایک لاکھ گھروں کی تعمیر پر فی گھر تین لاکھ روپے سبسڈی دی جائے گی جبکہ قرضے کی صورت میں مارک اپ کی شرح پانچ مرلہ مکان کے لیے پانچ فیصد اور دس مرلہ مکان کے لیے سات فیصد ہوگی، مارک اپ کی باقی رقم پر حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جائے گی اور گھر کی خریداری پر ذرائع آمدن بھی نہیں پوچھے جائیں گے، تعمیرات کی صنعت سے وابستہ افراد کو ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کی پُرزور ترغیب دیتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ یہ مہلت رواں سال اکتیس دسمبر تک کیلئے ہے کیونکہ کورونا کے پیش نظر عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں اختتام سال تک چھوٹ دی گئی ہے۔ مکانوں کی تعمیر کیلئے دنیا کے متعدد ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بینکوں کی جانب سے قرضے دیے جانے کا تقابل پاکستان سے کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہمارے ہاں یہ شرح محض اعشاریہ دو فیصد ہے جبکہ دنیا کے اکثر ملکوں میں بینک سب سے زیادہ قرضے تعمیرات اور گھر بنانے ہی کیلئے دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ حکومت نے بینکوں کو آمادہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے پورٹ فولیو کا پانچ فیصد تعمیرات کیلئے مختص کریںجس کے نتیجے میں ہاو?سنگ و تعمیرات کیلئے 330ارب روپے کی رقم فراہم ہوسکے گی، یہ توقع بیمحل نہیں کہ بینکوں کی قرضہ پالیسی میں یہ تبدیلی تعمیراتی سرگرمیوں میں نئی روح پھونکنے کا باعث بنے گی، اس کے نتیجے میں تعمیرات سے وابستہ درجنوں کاروبار فعال ہوجائیں گے اور روزگار کے نئے مواقع بڑی تعداد میں پیدا ہوں گے۔

تاہم ان خوش کن نتائج کیلئے تمام ذمہ دارانِ حکومت کا چوکس و بیدار اور پوری سرکاری مشینری کا متحرک و مستعد ہونا شرطِ اول ہے۔ وزیراعظم کے خطاب سے عیاں ہے کہ انہوں نے بھی بالآخر اس ضرورت کو پوری طرح محسوس کر لیا ہے چنانچہ اس موقع پر انہوں نے اپنی کابینہ کے اراکین سمیت اعلیٰ بیورو کریسی پر واضح کردیاکہ اب بریفنگ بریفنگ کھیلنے کا سلسلہ ختم کیا جائے اور کارکردگی دکھائی جائے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جو کارکردگی دکھائے گا وہ ان کی ٹیم میں رہے گا ورنہ گھر جائے گا’ وفاقی و صوبائی وزیروں’ سیکریٹریوں اور اداروں کے سربراہوں کوان کے کام کی بنیاد پر جانچا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوے نہیں عملی کام ہی کسی بھی حکومت کی اہلیت کا اصل پیمانہ ہوتے ہیں۔ عوام نے تحریک انصاف کے جن بلند بانگ دعووں اور وعدوں پر اسے ووٹ دیے تھے، دو سال سے وہ اس سمت میں پیش رفت کا انتظار کررہے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ان میں مایوسی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کم از کم اب پوری تندہی سے ہر شعبے میں بہترین کارکردگی کا ثبوت دیا جائے اور وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا ہے اسے عملی جامہ پہناکر دکھائیں’ بصورت دیگر لوگوں کے ردعمل کا کسی منفی شکل میں ظاہر ہونا بعید از امکان نہیں،وفاقی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کو مکمل کرے گا۔ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالیاتی رسائی کی روک تھام کے مو?ثر اقدامات میں اضافے کے ذریعے 14نکات پر مکمل عملدرآمد اور 13پر خاطر خواہ اور میوچل ایویلیو ایشن رپورٹ کی سفارشات پر نمایاں پیشرفت ہوئی ہے جس میں تکنیکی بہتری کے لئے پندرہ قانونی ترامیم شامل ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں تک مالی رسائی کے خاتمے کے لئے نیشنل رسک اسسمنٹ کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ ڈی این ایف پی، سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز، پاکستان پوسٹ سے متعلق اہداف پر عملدرآمد کیا گیا ہے اور پابندیوں کے معاملات کے دائرے کو وسیع کیا گیا ہے۔ مشیر خزانہ کی یہ بریفنگ عالمی تناظر میں نہایت اہمیت کی حامل ہے خصوصاً گزشتہ دنوں جب ایف اے ٹی ایف کے ورچوئل اجلاس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف اس کی غلط تشریح کرتے ہوئے گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی حالانکہ پاکستان متذکرہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں تھا۔ بین الاقوامی برادری نے بھارت کے پاکستان سے متعلق ایف اے ٹی ایف فورم کے غلط استعمال کا نوٹس لیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان 22کروڑ محنت کشوں کی آبادی کا حامل وہ ملک ہے جو اپنے وسائل کی بدولت ہر شعبہ زندگی سے عملی وابستگی کی بنا پر سر اُٹھا کر قوموں کی برادری میں عزت کے ساتھ سر اُٹھا کر جینے پر یقین رکھتا اور ہمسایوں کا احترام کرتا ہے۔ دوسروں کی جنگ اپنے سر لیتے ہوئے 20سال دہشتگردی کا شکار رہا اور بے شمار جانی و مالی قربانیاں دیں۔ بھارت کو جان لینا چاہئے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوگا۔وطنِ عزیز میں کورونا کے پھیلائو میں گزشتہ ریکارڈ کے مقابلے میں کمی ایک حوصلہ افزا امر ہے، تاہم یہ خوشی اس وقت گہنا سی جاتی ہے جب اس کی ایک وجہ ٹیسٹنگ کا کم ہونا بتائی جاتی ہے۔ البتہ صحت یاب افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ متاثرہ مریضوں کے لئے نوید مسرت ہے کہ ملک میں فعال مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ ملک میں مصدقہ مریضوں کی تعداد 2لاکھ 46ہزار 351ہے جبکہ اموات 5123تک جا پہنچی ہیں، کورونا وائرس کے کیسز کی یومیہ تعداد میں کمی آئی ہے۔ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 53ہزار 134ہے۔ فعال کیسز 88094ہیں۔ صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب اپنی گنجان آبادی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہیں، سندھ میں کیسز ایک لاکھ 2ہزار 368ہیں تو پنجاب میں ان کی تعداد 85ہزار 991ہے۔ لکیر پیٹنے کا اگرچہ کوئی فائدہ نہیں کہ کورونا کی وبا جن سنجیدہ، سخت اور دلیرانہ اقدامات کی متقاضی تھی، نہ کئے گئے لیکن اب اس کوتاہی سے بچتے ہوئے اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے موثر اقدامات کئے جا سکتے ہیں کہ نہ تو ہمارے ہاں ٹیسٹنگ مکمل ہے نہ ایس او پیز پر عملدرآمد۔ خبریں ہیں کہ دنیا کے متعدد علاقوں میں ختم ہونے کے بعد بھی وبا حملہ آور ہوئی۔ ہم نے تو ابھی اسے قابو کر کے اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ نیوزی لینڈ کی طرح، جو ہمارے لئے مثال ہے۔ کیا مشکل ہے کہ باہمی آویزش کو ختم کر کے ان ممالک سے رہنمائی اور معاونت حاصل کی جائے، خدارا اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے والے انسانیت کا سوچیں، کورونا نے وطن عزیز کو جن معاشی مسائل میں دھکیل دیا ہے وہ ابھی سامنے آنے ہیں،ہر پاکستانی شہری اور ہر پاکستانی ادارہ صدق دل سے ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے حکومت کا معاون بنے کہ یہ سیاست کا وقت قطعاً نہیں،
پانچ سال کی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد گلگت بلتستان کی حکومت ختم ہونے کے بعد عام انتخابات جو کہ پہلے 18اگست کو ہونے جارہے تھے مگر اب کچھ تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں ،گلگت بلتستان کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے انتخابات کو مقررہ تاریخ پر کروانے کا مطالبہ کیا ہے ،اور موجودہ نگران حکومت اور الیکشن کمشن گلگت و بلتستان کو چاہئیے کہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے ،تاکہ جمہوریت اور جمہور کا حق ادا کیا جائے ،شاہد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں