355

کرونا وائرس اورایلوہیم چرچ ایسوسی ایشن کی کارکر دگی – عامر پرویز کھوکھر

کووڈ 19چائنہ کے شہر ووہان سے شروع ہُوا اور اب تک تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اس خطرناک وائرس نے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ہم بات کرتے ہیں پشاور کی جس میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعد اد دن بہ دن اضافہ دیکھنے میں مل رہا ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ عوام کی بے قاعدگی نظر آئی۔ اس کی وجہ ہے کہ دیہاتی علاقوں میں لوگ اس بات کو ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں پا رہے لیکن آواز فائونڈیشن پاکستا ن اور ایلوہیم چرچ کے تعاون سے ان دیہاتی علاقوں کا سروے کرکے اس کووڈ 19سے روشنا س کروایا گیا۔ سروے کے دوران ہم لوگوں کو بہت ہی زیادہ لاچار پایا کیونکہ جو لوگ ڈیلی ویجز تھے ۔اُن کی معاشی حالت بہت زیادہ خراب تھی، اس سروے کے دوران خواجہ سرا ئوں کو بھی کافی پریشان پایا گیا۔ احساس پروگرام سے جن لوگوں کی کفالت کی گئی اُن کی بھی حالت زار بہت ہی خراب نظر آئی ۔ لیکن سروے کے دوران یہ بات بھی ہمارے سامنے آئی کہ بہت سارے حقدار عوام کو احساس پروگرام سے کوئی فائدہ ہی نہیںپہنچا لیکن ہم نے اُن کا ڈیٹا ٹھیک ٹھیک آواز فائونڈیشن پاکستان کے تعاون سے گورنمنٹ تک پہنچایا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اُمید ہے کہ آواز فائونڈیشن پاکستان نے یہ جو بیڑا اٹھایا ہے۔ کامیابی ضرور حاصل کریں گے۔موجودہ صورتحال میں تما م طبقے بُر ی طر ح متاثر ہوئے۔



وباء کی اس صورتحال میں ایک ذمہ دار معاشرے اور اسکے اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام کمزور طبقوں جس میں بیوہ خواتین ، معدوز، خواجہ سرااور اقلیتوں کو اپنی سرگرمیوں اور پروگراموں کا حصہ بنائیں۔ اسی سلسلے میں آواز فائونڈیشن پاکستان اجالا پروجیکٹ کے ذریعے اپنی پارٹنر تنظیموں کے ساتھ ملکر ان کمزور طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم رہے اور پاکستان کے 45اضلاع میں ان لوگوں کو راشن کے ساتھ آگاہی پروگرام میں مصروف عمل ہے ، اس سروے کے دوران جہاں ایک بات دیکھنے کو ملی کہ احساس پروگرام میں جہاں بہت سے گھرانوں کو کیش پروگرام کے ذریعے معاونت ملی۔ لیکن زیادہ تر حق داروں کو نظرانداز بھی کیا گیا۔ ہم نے اور ہمارے پارٹنرز نے مل کر ان حق داروں کی نشان دہی بھی کی۔وہیںپر بہت سے ایسے طبقے اور گھر انے اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکے۔ انہی طبقوں میں معذور افراد ، بیوہ خواتین،طلاق یا فتہ خواتین کے ساتھ ساتھ خواجہ سرائو اور اقلیتی برادری کے ضرورت مندگھرانے بھی اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکے اور ان جیسے گھرانوں کو احساس کیش پروگرام کا حصہ بناناچاہئے۔ دوسری بات یہ دیکھنے کوملی کہ سماجی فاصلے اور حکومت کی طرف سے دی گئی ہدایا ت پر احساس کیش پروگرام سنٹر کے ساتھ دوسر ے اہم مقامات پر عمل نہیں کیاگیا جو ایک افسوس ناک عمل تھا۔ سروے کے دوران ہمیں معاشرے کے رویئے دیکھنے کو ملے جس میں انہوں نے اپنی پوری ذمہ داری کا مظاہر ہ نہیں کیا ۔ جیسا کہ لوگ ماسک استعمال کر کے ادھر اوھرپھینک دیتے جس سے وباء کا فی حد تک بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ایک اچھے معاشرے کے شہری ہونے کاثبوت دیں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں