380

کرونا کے بعد قرنطینہ کا تجربہ – ڈاکٹر محمد عامر قدوائی

گھریلو کرفیو، میں نے اپنی زندگی میں ایک ہی کرفیودیکھا وہ بھی جنرل مشرف صاحب کا جس پہ بھی عام آدمی کا تاثر کچھ اس طرح سے ہے کہ بہت خوشحال تھا بہت آرام دہ تھا بالخصوص ہم جیسے جو کہ باہر کے ملکوں سے اعلیٰ تعلیم کرکے آئے اور کم عمری میں ہی قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہوگئے وگرنہ پہلے اس طرح کا سوچنا ممکن نہ تھا اورپھر میرے جیسا متوسط طبقے کا آدمی جو والدین کی ساری جمع پونجی تعلیم پر لگاکر آیا ہوکو اسسٹنٹ پروفیسر لگا دیا جائے تو یہ میرٹ معراج ہے۔ میں بحیثیت ماہر ادویات جو کہ فارماسسٹ کہلاتے ہیں بہت خوش تھا اچھی پوسٹ تھی اور اچھی تنخوا ہ مل رہی تھی۔ بہت اچھا دور تھا وہ کرفیوہمارے لئے کرفیو نہیں تھا ہمارے لئے ایک اچھا قدم تھا ہم نے تو اس دور کو بہت محظوظ کیا۔نوکری لگی ہوئی تھی اوردفتر اور پڑھانے جانا نہیں پڑتا تھا اور مزے سے گھر میں بیٹھ کر مرغ بریانی کا شوق پورا کررہے تھے ۔ اب یہ کرفیوہے جو کہ بالکل مختلف ہے اسے خودساختہ یا گھریلوکرفیو کہتے ہیں۔یہ کرفیوکسی حکومت یا فرد نے نہیں ڈالا بلکہ ایک نہ نظر آنے والی مخلوق کی کارستانی ہے اب ہمارے بدن پر ہماری نہیں بلکہ ایک جراثیم کی حکمرانی ہے ۔ اس جراثیم کی حکمرانی اس طرح سے ہے کہ ایک غریب ملک کیا سپر پاور ملک بھی اس کے آگے بے بس ہے۔ عام آدمی تو کیا بڑے بڑے لوگ بلکہ حکمران طبقہ بھی اس کی پہنچ سے دور نہیں دنیا میں ملکوں کے صدر ، وزیر اعظم ، وزیر ، سیاست دان، سائنس دان، وکیل اور تو اور دیہاڑی دار مزدوربھی اس کا شکار بن چکے ہیں۔
کرونا کے بعد کا قرنطینہ ہونا تقریباً اسی طرح کا ہے کہ نوکری لگی ہے دفتر جانا نہیں بلکہ گھر پر بھی کام نہیں کرنا لیکن اس میں کچھ مختلف ہے ایک تو یہ کہ بیماری لگی ہوئی ہے اور جس کا غم صرف ہمیں نہیں بلکہ سارے گھروالوں ‘ رشتہ داروں اور محلے والوں کو بھی ہے۔میں مانتا ہوں کہ پوری دنیا میں کرونا کا شکار ہونے والوںمیں سے اموات کاتناسب تندرست ہونے والوں سے بہت کم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لاکھوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں۔ لہٰذا کرونا ہونے سے کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔



یہ گھریلوڈکٹیٹرشپ ہے شادی کے بعد میں سمجھتا تھا کہ میری حکمرانی ہوگی مگروومن ڈرائیو کا شکا رہوگیا۔ بیوی کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ لیکن کرونا کرونا نے وومن ڈرائیوکو اور مضبوط کردیا ہے پہلے بھی گھر کی حکمرانی میری بیگم کے ہاتھ میں ہی تھی مگر کرونا ہونے کے بعد تو اب اٹھنا بیٹھنا ۔کھانا پینا ، سونا جاگنا، آنا جانا سب کچھ بیگم کی مرضی اور ہدایات پر ہورہا ہے ۔میںبحیثیت ڈاکٹر اپنی بیگم کو جتنا بھی طب کی تحقیقات کا شعور اور علم دے دوں مگر کرنا وہی ہے جو میری بیگم کا جی چاہے گا۔ میںنے اپنی بیگم کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ بیگم اگر میں نے ماسک پہنا ہے اور سارے حفاظتی اقدامات کرلئے ہیں تب تو یہ پابندیاں مجھ پر نہیں لگ سکتیں اور سب سے بڑھ کر اگر میں ایک دفعہ کر ونا کا شکار ہوچکا ہوں اور اپنا وقت گزار چکا ہوں مگر بیگم کو تو بس ا پنی ہی کرنی ہے میں انٹرنیٹ پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا موقف سنا دیا لیکن مرغ کی وہی ایک ٹانگ اور ہماری بیگم ہم سے اب بھی کرونا سے بچائو والے سارے حفاظتی اقدامات اٹھوارہی ہیں ۔ ہم جب کے ہم قرنطینہ گزار کر دفتر جانا شروع ہوچکے ہیں تو جیسے ہی دفتر سے تھکے ہارے واپس آتا ہوںتوبیگم دروازے پر ہی سے حکم صادر فرمادیتی ہیں کہ جوتے کپڑے وہیں اتاردواور فوراً سے اٹیچ باتھ میں نہا دھوکر نئے کپڑے پہن کر ہی گھر میں داخل ہوں۔ مجھے روزانہ گھر آنے پر پچیس دفعہ ہاتھ دھونے پڑتے ہیں چار ایک دفعہ نہانا پڑتا ہے اور ہر ایک بات پر کچھ نئی ہدایات ملتی ہیںاتنی دفعہ ہاتھ دھونے بلکہ نہانے سے مجھے تو امید لگ گئی تھی کہ میرا سانولہ رنگ گوراہونے جارہا ہوگا مگر میری بیگم کی نظروں سے دیکھا جائے تو اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔ لیکن ان ساری سختیوں کا ایک اثر ضرور ہوا ہے کہ مجھے باہر کے کھانے پر پابندی ہوگئی ہے لہٰذاگھر کا کھانا تھوڑا کھا کر ہی گزارا کرتا ہوں اور یوں میرا وزن دس بارہ کلو کم ہوگیاہے۔



کرونا ہونے کے بعد اب لوگوں کی ہر طرح کی رائے مل رہی ہے ہر کوئی اپنے بس کے مطابق ہدایات دے رہا ہے اور کچھ تو میری بیگم کے ذریعے سے لاگو بھی کروارہاہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ میری بیگم کو دنیا جہاں کے طب کے علوم پر عبور ہے لہسن سے لے کر تو قوت مدافعت بڑھ جائے گی اور اگر یہ بوٹی استعمال کریں گے تو یہ طاقت آجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ہم تو ٹھہرے سائنسی آدمی ہر چیز کا کوئی جواز ہونا چاہئے تو ہم درخواست کرتے ہیں کہ کوئی جواز دکھادیں مگر نہ اسے سے پہلے اور نہ آج کوئی ڈکٹیٹر شپ کے آگے بول سکا ہے اور نہ کبھی انکار کی جرات کرسکا ہے، جواز ہے یا نہیں بیگم نے کہہ دیا تو کہہ دیا بات ختم۔ اسی نتیجے میں سبز چائے کہ جس سے مجھے سخت نفرت ہے مگر بیگم کے ڈرسے آج کل دبا کر پی رہاہوںجن پھلوں کو کبھی میں نے منہ نہیں لگایا تھا آج کل وہی پھل کھانے پڑرہے ہیں۔
میں اور میری بیٹی اس ڈکٹیٹرشپ کے زیر اثر ہیں پہلے میں گھر آتا تھا تو میری بیٹی بڑی محبت سے اور للچاتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتی کہ اب ابومجھے گود میں اٹھائیں گے اور خوب پیار کریں گے۔ دیکھتی تو اب بھی ہے کہ اب میرے دوست اور ساتھی آگئے ہیں لیکن بیچ میں ڈکٹیٹر کی ہدایات آجاتی ہیںوہ میری طرف دیکھتی ہے کہ میرے ابو مجھے اس عذاب سے بچائیں گے لیکن وہ ابھی بہت چھوٹی ہے نہیں جانتی کہ میرے بھی ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور میں بھی اس ڈکٹیٹر کے سامنے سرنگوں ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔ لیکن میری ہمت دیکھیں اتنا سب کچھ کے باوجود میں اپنی بیگم کا ممنون ہوں کہ وہ میری صحت کے بارے میں پریشان رہتی ہیں۔میں انہیں سلام پیش کرتا ہوںبلکہ ہر گرمیں ایک خاتون خانہ ضرور ہیں کہ جس نے اتنی ہدایت پر سختی سے عمل کرواکر اپنے پورے خاندان کو متاثرہونے سے بچالیا ہے۔ یقین جانئے اگر یہ خواتین ہم جیسے لوگوں کو قدم قدم پر نہ سمجھائیں تو مجھ کرونا ہونے کے بعد میری بیگم والدین بلکہ میری چھوٹی سی پیاری سی بچی کو بھی خدانخواستہ کرونا ہوچکا ہوتا۔ میں اپنی بیگم اور ان تمام گھریلو خواتین کا شکریہ اداکرتاہوں جنہوں نے حفاظتی اقدامات اپناکر پورے گھر کو محفوظ رکھا ہواہے۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں