قوت قوت ہوتی ہے۔ لیکن ایک قوت تباہی لاتی ہے اور دوسری قوت آبادی لاتی ہے۔اول الذکر قوت کے حصول کے لئے بھی تگ ودو کرنی پڑتی ہے البتہ اس کا استعمال ہلہ بول کے کیا جاتا ہے۔ثانی الذکر کے لئے بھی ایک طویل جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اس کا استعمال بھی دھیرے دھیرے اور درجہ بدرجہ ہوتا ہے۔اول الذکر ہلہ بول کے تباہی لے آتی ہے ۔اور ثانی الذکر دھیرے دھیریایک مستحکم سٹرکچر بنادیتا ہے۔آئیں اس معمہ کو حل کریں کہ ان دو قوتوں سے کیا مراد ہے۔تو اول الذکر(یعنی گرم قوت)سے مراد جنگ اور ثانی الذکر(یعنی نرم قوت)علم وفن کا حصول ہے۔دنیا میں ہمیشہ سے جنگیں رہی ہیں اور رہیں گی بھی۔اور بعض اوقات یہ مجبوری بھی بن جاتی ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہوتا نہیں۔تو چاروناچارجنگ کرنا پڑتی ہے۔لیکن انسان اور جس کے پاس قوت ہو یا اسے قوی ہونے کا زعم ہو یا وہ چاہتا ہو کہ بزور بازو واسلحہ لوگوں کو ،اقوام کو،خطوں کو،ممالک کو،مناطق کویا وسائل کو زیر کروں تو وہ تیاریاں بھی کرتا رہتا ہے جنگ کے لئے ،اس کے کے لئے ماحول بھی پیدا کرتا رہتا ہے اور اس ماحول کیپیدا کرنے کے لئے اس کو کتنے جھوٹ مکروفریب اور دغابازی سے کام لینا پڑتا ہے ۔وہ ایک فرضی کہانی گھڑ کے اس کا اتنا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں آجاتا ہے کہ یہ سچ کہہ رہا ہے ۔اس کے لئے وہ متعلقہ خطہ یا لوگوں کو اتنا متہم کردیتا ہے ،ان کو ایسا فریم کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو بدی کا محور نظر آتے ہیں۔اور پھر جس وقت وہ قوت ان پر ہلہ بول دیتا ہے تو ان کے لئے بولنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا اور یوں طاقت ور اپنا الو سیدھاکرجاتا ہے ۔آج تک جتنی جنگیں ہوئیں ان میں سے اکثر اس انداز سے برپا ہوئیں۔کہیں اصل برائی اور شر کے خاتمہ کے لئے بھی ایسا کرنا پڑا ہے اور ایسا کرنا لازمی بھی تھااس کے لئے شر اور ظلم کا دفع کرنا عقل ونقل دونوں کا تقاضا ہے ۔البتہ جنگ تخلیق کرنا کوئی معقول بات نہیں۔رسول پاکۖ نے فرمایالا تتمنوا لقا العدو سلوااللہ العافی ولکن اذا لقیتم فاثبتواتمنا نہ کرو دشمن کی ملاقات یعنی آمنا سامنا کرنے کی اور اللہ سے عافیت (امن وسلامتی )مانگا کرولیکن جب سامنا ہو تو پھر ثبات(استقامت )دکھاو۔تو حتی الوسع جنگ سے بچنا ہوتا ہے ۔ایسے حالات میں رسول پاکۖ کا حکم کہ ان کو اسلام کی دعوت دو پھر جزیہ یعنی تسلیم ہونے کی دعوت دو اور اگر وہ ہر دو سے انکار کریں تو پھر جنگ کرو۔بہر تقدیر یہ گرم قوت کا اظہار ہے یا قوت کا گرم اظہار ہے ۔اور دین میں جہاد کی کتنی فضیلت ہے لیکن وہ مقصد کے حوالے سے ہیکہ ظلم اور حرابہ کا قلع قمع ہوجائے۔ ورنہ تو علما اصول فقہ فرماتے ہیں کہ جنگ فی نفسہ تو قبیح ہے کہ اس میں تعذیب عباداللہ،تخریب بلاداللہ ،اللہ کے بندے(انسان)عذاب ہوتے ہیں اور اللہ کے شہر تباہ ہوتے ہیں ۔اور فساد فی الارض تو مذموم ہے لیکن ہدف اور مقصد ظلم اور حرابت کا قلع قمع ہے تو حسن لغیرہ ہوگیا۔اور اس کا لڑنے والا اگر زندہ رہا تو مجاہد اور قتل ہوگیا تو شہید کا ٹائٹل جیت گیاہے۔لیکن آج کید ور میں ایک دوسری قوت بھی ہے یا قوت کا ایک دوسرا اظہار ہے ۔اور وہ ہے عصری علوم وفنون میں ترقی اور مہارت کہ ایسے میں ایجادات نافعہ مفیدہ کرکرکے ایک تو اقوام عالم میں عزت وافتخار کا مقام مل جاتا ہے اور یہ بھی ایک قسم کی سیادت ہے ۔اور ساتھ ساتھ اس سے دولت بھی کمائی جائے گی ۔تو دو ہی چیزیں ہیں جس کے لئے انسان تگ ودو کرتے رہتے ہیں ۔۔ایک منصب وسیادت۔اور دوسری دولتاور یہ دونوں علم وفن میں تقدم حاصل کرنے سے آجاتے ہیں۔اور انسانوں کی عادت ہے قوت اور دولت والوں کے اطوار وعادات اپناتے ہیں ۔پہلے تو ویسے رسما لیکن بعدمیں وہ ان کا مزاج بن جاتا ہے اور یوں اگر مسلمانوں میں یہ قوت آئے تو لازما لوگ ان کو فالو کریں گے۔یعنی ضرورت اس امر کی ہے کہ علم وفن میں تقدم حاصل کیا جائے اور یہ کب ہوگا ؟تو اس کے لئے اساسی چیز اساسی تقاضے ہیں ۔معیاری ادارہ اور اس کا نظم وضبط۔تخلیقی تعلیم اور تعلیمی قابلیت۔اور اقدار واخلاق وکردار رکھنے والے اساتذہ ۔یعنی وہ حامل علم بھی ہو اور عامل علم بھی ہو اور طلبا کی جسمانی ،ذہنی ،اخلاقی ،فکری ،روحانی اور معاشرتی تربیت بھی تعلیم اور نصاب کا لازمی حصہ ہو۔استاد کے شخصی اوصاف اور پیشہ ورانہ مہارت اس میں فعلیت پیدا کرتی ہے جبکہ طالب علم کی مذکورہ تربیت اس میں انفعال پیدا کرتا ہے ۔استاد اور شاگردکا باہمی رشتہ احترام او دوستی کا ہو۔ایک اچھے انسان کے لئے فکر،ادب،فلسفہ اور سائنس کی تعلیم ضروری ہے۔فکر عقیدہ اور اس کے تقاضوں کو شامل ہے۔فلسفہ عقلی انداز سے چیز کو سمجھنا ہے اور یہ جمالیاتی ذوق پیدا کرکے زندگی سے عشق پیدا کردیتا ہے اور سائنس مسخر کائنات کو بروئے کار لانا ہے۔یاد رہیپہلی والی قوت سے بہت کچھ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے سب کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔جبکہ دوسری والی قوت سے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اللہم اھدنا واھد بنا یا رب العالمین۔
343