402

ایک تاریک رات کا حملہ

نجات خان مہمند


مکمل اندھیرا چھا جانے سے زرہ پہلے کیمپ کے مغربی سمت میں پیکٹ(مورچہ) نمبر چھ اور سات کے ارد گرد دشمن لشکر (قبائل) جمع ہونا شروع ہوگئے۔ان پیکٹس میں بائسویں پنجاب رجمٹ کے سپاہی پہرہ دے رہےتھے۔ جبکہ پیکٹ نمبر ایک اور دو میں ستاون ویں رائفلز کے سپاہی مورچہ زن تھے جو کیمپ کے شمال مشرقی سمت واقع تھے۔درمیان کے مورچوں میں ترپن ویں سکھ رجمنٹ کے سپاہی موجود تھے جو کہ بالکل محفوظ جگہ پر تھے۔قبائل نے اچانک کیمپ اور ان پیکٹس پر فائرنگ کھول دی۔چونکہ بادل چھائے ہوئے تھے اسلئے چاند کو ڈھانپ کر رات کے اندھیرے میں مزید اضافہ کرگئے۔جبکہ اسی اثنا تیز بارش بھی شروع ہوئی جو سردی کا باعث بنی۔سرد اور تاریک رات میں مورچہ نمبر چھ اور سات پر دشمن(قبائل) کی فائرنگ میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔جبکہ دشمن کے ڈھول اور سرنا کے ساتھ تکبیر کے نعرے لگانے کی گونج ان پیکٹس میں واضح طور پر سنائی دے رہی تھی۔رات کے نو بجے لیفٹننٹ فوولر جو بائسویں پنجاب کی قیادت کررہےتھے،نے کیمپ میں جنرل اینڈرسن کو مطلع کیا کہ پیکٹ نمبر چھ اور ساتھ نے مزید کومک اور ایمیونیشن کےلئے سگنلز دئیے ہیں۔جبکہ یہ بھی بتایا ہے کہ ان دو پیکٹس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا ہے اور دشمن بڑی تعداد میں ہمارے سپاہیوں کو جانی نقصان پہنچا رہے ہیں۔یاد رہے کہ اس زمانے میں پیغام رسائی کا کوئی جدید برقی نظام نہیں تھا۔اسلئے برطانوی فوج پیغام رسائی کے لئے ایک مورچہ سے دوسرے کےلئے رات کو لیمپ اور دن کو سورج کی روشنی کے زریعہ شیشوں کا استعمال کرتے تھے۔دو دفعہ شیشہ کی سگنل دینے کا ایک مطلب ہوتا اور ایک دفعہ شیشہ مارنے کا کوئی دوسرامطلب ہوتا تھا۔
جنرل اینڈرسن مورچہ نمبر چھ اور سات کے قریب چراغ کے ڈبل سگنلز کے پیغام رسائی کا نظام بنانا چاہتے تھے۔مگر دشمن(مہمند قبائل) کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے اور برطانوی فوج کی طرف سے جانی نقصانات اٹھانے کی وجہ سے پیکٹ چھ کی لیمپ بجھ گئی۔رات کے دس بجہ کے قریب پیکٹ چھ سے دو برطانوی سپاہی مشرق میں کیمپ کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ دو سپاہی جب کیمپ میں آگئے تو انھوں نے پیکٹ چھ کا پورہ حال احوال سنایا کہ اسلحہ اور کارتوس بہت کم رہ گئے۔جبکہ دو غیر کمیشنڈ آفیسر مورچہ میں جان سے چلے گئے اور لاتعداد سپاہی زخمی ہوچکے ہیں۔جو مزید لڑنے کے قابل نہیں ہیں۔ان سپاہیوں نے مزید بتایا کہ قبائل بہت زیادہ تعداد میں ان دو مورچوں کا گھیراؤ کرچکے ہیں کہ اگر کومک نہ پہنچائی گئی تو عنقریب دشمن ان مورچوں کو نیست و نابود کردیگا۔اسی اثنا پیکٹ نمبر سات سے بھی پیغام موصول ہوئی کہ ایک علاقائی آفیسر اور ایک نن کمیشنڈ آفیسر زخمی ہوچکے ہیں،جسکی وجہ سے اب قیادت نائیک جانداد خان کررہاہے۔جبکہ دشمن نے تینوں اطراف سے پیکٹ چھ کو گھیرے میں لیا ہواہے۔اس وقت پیکٹ چھ کی خالت بہت حطرے میں تھی۔اسلئے جنرل انڈرسن اس پیکٹ کو کومک پہنچانے کی حق میں تھے۔کیونکہ اگر یہ پیکٹ مہمند قبائل کے قبضہ میں آجاتا تو پھر قبائل کےسامنے کیمپ پر حملہ کےلئے کوئی روکاوٹ نہ ہوتی۔اب اسی وقت ایک اور سپاہی ہاتھ پر گولی لگے خون سے لت پت زندہ خالت میں پیکٹ چھ سے کیمپ کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔اور وہی ماجرہ سنایا کہ پیکٹ میں تمام سپاہی خطرے میں ہیں۔پیکٹ نمبر چھ کو کومک پہنچانے کے تمام انتظامات ہوگئے۔جبکہ آس پاس پیکٹس کو پیغام بھی بھیج دیا گیا کہ پیکٹ چھ کو رسد پہنچائی جارہی ہیں۔اسلئے کسی بھی قسم کی فائرنگ نہیں ہونی چاہئے۔رات کے گیارہ بجے میجر کلائمو اور لیفٹننٹ ویب اور منی کی قیادت میں پچاس بندوقوں پر مشتمل کومک کو ڈھول اور سُرنا کے ساتھ روانہ کیاگیا۔جب یہ دستہ پیکٹ نمبر چھ کے قریب پہنچا تو قبائل کی طرف سے ان پر بھاری فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔دونوں طرف سے گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی۔مگر یہ دستہ کچھ جانی نقصان کے ساتھ پیکٹ چھ کو پہنچ گیا۔وہاں میجر کلائمو نے کیمپ کو پیغام بھیجا کہ ڈبل کمپنی کو پوری رات یہاں گزارنی چاہئئے کیونکہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہیں۔ اس اثنا میں قبائل نے پیکٹ نمبر سات کی طرف توجہ مرکوز کی۔یہاں سپاہی رام سنگھ جو نحقی اور کسّئ(میاں منڈی مہمند)کیمپ کو پیغامات بھیجتے تھے،نے پیغام رسائی کےلئے لیمپ کو مورچہ سے باہر رکھا۔اس وقت رام سنگھ زخمی ہوئے اور سنگر میں پناہ لینے کے بعد مہمند قبائل نے سخت حملہ کرکے لیمپ کو اپنے قبضہ میں لےلیا۔جس کی وجہ سے پیکٹ سات کا نحقی کیمپ(گندھاب مہمند) سے رابطہ منقطع ہوگیا۔اس طرح پیکٹ سات میں بھی برطانوی فوج کو کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا رہا۔مگر کیمپ کی طرف سے قبائل پر مسلسل توپ کی فائرنگ سے پیکٹ سات پر قبائل کی چڑھائی ممکن نہ ہوسکی۔
اس طرح انگریز کے ایک طرفہ اعداد و شمار کے مطابق ان پیکٹس میں ایک آفیسر سمیت سات سپاہی ہلاک ہوئے۔ایک سپاہی کومک پہنچانے والے دستہ میں اور ایک کیمپ میں ہلاک ہوئے۔جبکہ زخمیوں کی تعداد گیارہ رہی۔
دوستوں یہ واقعات 16اور 17مئی 1908کے ایک تاریک اور یخ بستہ رات کی مہمندبرطانوی جنگ کی ہیں۔جب انگریز مہمند قوم کے علاقہ میں داخل ہوکر حلیمزئی کے قُرب و جوار میں واقع نحقی اور کَسّئ میں دو کیمپ بنائے۔نحقی کیمپ کے ارد گرد انگریز فوج نے کُل آٹھ حفاظتی مورچے بنائے۔مگر اسی رات مہمند قبائل نے آٹوخیل اور دروازگئی کی طرف سے انگریز پر حملہ کرکے ان کو تگنی کے ناچ نچایا۔جب انگریز یہ مورچے بنارہےتھے۔تب بھی بہادر اور دلیر مہمند لشکر کے مجاہدین ان کے ساتھ لڑتے رہے اور ان کو کافی جانی نقصان پہنچاتے رہے۔اگلے دن ان دو کیمپوں کے قریب تمام گاوں کو انگریز فوج نےتوپوں کے گولے برسا کر مسمار کئیے۔اسلام اور قوم پرستی کے جذبات سے سرشار مہمند قبائل کے یہ مالی اور جانی نقصانات ان کے حوصلوں کو پست نہ کرسکے۔ مہمند قبائل اور انگریز فوج کے جنگوں کی داستانیں سو سال سے زائد عرصہ پرمشتمل ہیں۔جس میں ہر دفعہ جدید اسلحہ اور فن سے لیس پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے انگریز فوج نہتے اور غیر منظم مہمند قبائل کے سامنے ریت کے ڈھیر ثابت ہوئے ہیں۔اور ہر دفعہ برطانوی فوج کو منہ کی کھانی پڑی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں