تاریخ انسانی شاہد ہے کہ اقوام ابھرتی بھی ہیں اور گرتی بھی ہیں لیکن گری ہوئی اقوام پھر بھی ابھر آتی ہیں اگر وہ نفسیاتی پسپائی اور ذہنی قنوطیت کے شکار نہ ہوئے ہوں ورنہ پھر تو انسان کے ابھرنے کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ وہ زندہ لاشوں جیسے ہوجاتے ہیں۔یا پھر ٹی وی کی سکرین پر چلتی پھرتی تصویروں جیسے ہوتے ہیں۔ان تصاویر کو کوئی احمق ہی زندہ تصور کرے گا یا ان سے کچھ کرنے کی آس اور امید رکھے گا۔اس بیماری میں گرے ہوئے لوگ زندگی کو سنجیدہ نہیں لیتے بس وہ مرنے تک زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بس۔ان سے نہ محنت ہوتی ہے اور نہ مقابلہ۔لہٰذا وہ مسابقت کی دوڑ میں تو کیا پیچھے رہیں گے وہ تو اس میں حصہ ہی نہیں لیتے ۔ان کا یہ عقیدہ بنا ہوتا ہے کہ بس اب ہم جو کچھ ہیں اور جیسے ہیں یہی ہمارا مقدر ہے حالانکہ بطور انسان کے افراد اور اقوام دونوں تقدیر کے مکلف نہیں۔تقدیر پر تو ان کا عقیدہ ہونا لازمی ہے لیکن تقدیر تو ان کے علم میں نہیں کہ کیا ہے تووہ اس پر راضی کیسے ہوئے ؟وہ اٹھیں اور محنت کریں مسابقت میں حصہ لیں اور بساط بھر کوشش کریں پھر جو نتیجہ آئے وہی مقدر ہے لیکن وہ بھی اس وقت کا۔بعد میں تو اس نے پھر اٹھنا ہے اور محنت کرنا ہے اور مسابقت میں حصہ لینا ہے کہ وہ زندہ ہے اور یہ زندگی ہے اور وتلک الایام نداولہا بین الناساور یہی حوادث ہیں (زمانے کے)جو ہم لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے ہیں۔
آج ان کا نمبرتوکل تمہارا ہوسکتا ہے ۔اس کام کے لئے سنجیدہ ہونااولین ضرورت ہے کہ زندگی کو کھیل نہ سمجھیں اس کو سنجیدہ لے لیں ،محنت کریں ،وسائل اور صلاحیت بروئے کار لائیں توآج نہیں تو کل کامیاب ہوجائوگے۔فرد ہو تو بھی اور قوم ہو تو بھی ۔ورنہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات یعنی بصورت دیگر ذلت اور غلامی کی زندگی یا پھر موت اس کا نتیجہ ہوگا۔اقوام کے حوالے سے تو یہ معاملہ اور بھی زیادہ سنجیدگی کا متقاضی ہے کہ ان کی سستی اور لاپرواہی تو آنے والی نسلوں کوذلیل اور غلام بناکے رکھے گی کیونکہ مرضی ان کی چلے گی جس کے پاس قوت ہو وہ کم ازکم دھمکی اور دھونس والے کو مڑ کے آنکھیں دکھا سکتا ہو۔بزرگوں سے قصہ سنتے تھے ایک آدمی کا بیٹا کھیل کود کے وقت ہمیشہ ہم جھولیوں سے ماررکھاکے روتا آتا ۔باپ کہتا کہ تمہارے ہاتھ نہیں کیا؟تمہارے ہاتھ چلتے نہیں لات نہیں وہ آپ مار نہیں سکتے یا روزانہ ماتم کرتے ہوئے آئوگے۔مدت بعد اس کے باپ کے پاس کوئی بندہ شکایت لے کے آیا کہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کو مارا وہ روتا ہوا گھر آیا ۔وہ بندہ دوڑ کے گھر سے کچھ میٹھا لایا اور اس بندے سے کہا کہ پہلے تو یہ کھائوآج میرا بیٹا پیدا ہوا ہےاور پھر اس سے معذرت کی اور معافی مانگی کہ ایسا نہیں کیا لیکن میں اس دن کے انتظار میں تھا کہ کب وہ کسی کو مڑ کے آنکھیں دکھائے گا تا کہ مجھے پتہ چلے کہ وہ زندہ ہے ۔قصے کا مقصد کسی مارکٹائی کا بازار گرم کرنا نہیں۔مقصد یہ ہے کہ جو اقوام حال میں کچھ کرنے کے نہیں ہوتے وہ ہمیشہ ماضی میں اپنے گزرے ہوئے اسلاف میں سے اگر کوئی ان کو ملے کہ کچھ کیا ہے ان کا ذکر کے اپنی نفس کو تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔اگر نہ بھی کیا ہو تو کچھ گھڑ لیتے ہیں اور اس تسکین کے لئے پھر ان کو یہ احساس وادراک بھی نہیں ہوتا کہ کہیں ایسا کہنا میرے ایمان کے تقاضوں کے خلاف تو نہیں جائے گا جبکہ اگر ان اسلاف نے کچھ کیا بھی ہے تو یہ فخر کرنے والا تو ان کو بھی نہیں فالو کرتا۔
کسی زمانے میں ایک سندھی قوم پرست لیڈر نے بیان داغا کہ راجہ داہر سندھ دھرتی کے سپوت اور ہمارے ہیرو ہیں جب کہ محمد بن قاسم تو جارح تھے ۔اب راجہ داہر قطع نظر اس کے کہ مسلمان نہیں تھے محمد بن قاسم سے لڑے تو۔لیکن وہ لیڈر تو سندھ میں بیٹھ کر اس وقت کے سوویت یونین کے مدح خوان ہوتے اور روس نے جب افغانستان پہ یلغار کیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اور کہتے کہ جلد سندھ میں ان کا خیر مقدم کریں گے ۔یہی ہوتا ہے کچھ نہ کرنے والوں کی اپروچ اور بالغ نظری کہ ایک مسلمان جرنیل کو جارح کہتے اور منکر خدا قوت کے خیر مقدم کے لئے کمر بستہ تھے ۔یعنی ایک یلغار والا جارح اور دوسرا ہیرو۔تو راجہ داہر سندھی اور مقامی تھے تو ہیرو بنایا لیکن سوویت یونین تو باہر سے آرہا تھا اور وہ ان کو ہیروبنانے کے کے لئے تیار تھا۔
ایک فلسفی نے کہا تھا افسوس اس قوم پر نہیں ہوتا جن میں ہیرو نہیں پیدا ہوتا بلکہ ان پر ہوتا ہے جو ہیرو کے انتظار میں رہتے ہیں یا ہیرو بناتے رہتے ہیں۔کچھ پنجابی قوم پرستوں نے نے بھی کسی زمانے میں رنجیت سنگھ کو پنجابی ہیرو قرار دیا تھا اور کچھ پشتون اور بلوچ قوم پرست بھی سوویت یونین کے انتظار میں تھے کہ وہ آئیں تا کہ ہمیں ہیرو نصیب ہوں۔یہ نفسیاتی پسپائی اور قنوطیت ہے جس نے ذہنی طور پر دیوالیہ بنادیا ہے۔اور حسرت یہ ہے کہ یہ سب مسلمان بھی ہیں ۔آج مسلمان جو نسلی قومیت میں گرے ہیں اور ایک عالمی اور آفاقی دین رکھنے کے باوجود اپنے کو محدود کرنا چاہتے ہیں ۔ساتھ ساتھ یہ بھی نفسیاتی پسپائی اور ذہنی قنوطیت ہے جو مسلمان اس آفاقی اور عالمی دین کو خطوں اور فرقوں کے حوالے سے جانتے ہیں ۔دنیا میں رہتے ہوئے انسانیت کا بھی ایک معیار ہونا چاہئے ۔دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی ایک معیار ہونا چاہئے اور ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کے لئے بھی ایک معیار ہونا ضروری ہے ۔اس سے ملک میں رہنے والوں میں وحدت آئے گی اس سے ساری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں میں وحدت آئے گی اور اس سے ساری دنیا میں کے انسانوں میں وحدت آئے گی کیونکہ دین اسلام تو مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو سمونے والا دین ہے جب تک کہ کسی تہذیب یا کسی ثقافت کے کسی رسم ورواج کا دین سے تصادم نہ ہو کہ عرف وعادت تو شریعت اسلامی کے ثانوی ماخذ میں سے ایک ماخذ اور اصل ہے ۔
مثال سے اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ روزے تو سارے مسلمان رکھتے ہیں یہ دین ہے ،کھجور سے افطاری کو مستحب سمجھا جاتا ہے ساری دنیا میں لیکن اس کے ساتھ افطاری میں کیا کھایا جاتا ہے یا سحری میں کیا کھایا جاتا ہے یہ ثقافت مختلف خطوں میں مختلف ہے تو اس پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔مذہب اپنی اخلاقی قوت کے ذریعے کسی بھی ثقافت کی روح بن سکتی ہے لیکن مذہب پر عملیت میں ثقافت کا رنگ دکھائی دیتا ہے ہاں یہ ہے کہ کبھی کبھار ہم اس ثقافتی رنگ کو بھی مذہب سمجھ لیتے ہیں تو جو ویسا نہیں کرتے تو اس کو پھر غلط سمجھ بیٹھتے ہیں ۔
ہمارے ہاں ایک دوست ہے پاکستان سے ڈاکٹر ہے سیدھے سادھے بندے ہیں گزشتہ رمضان میں مجھے کہا کہ میرے ساتھ کام کرنے والے ایک امریکی ساتھی نے کہا کہ میں بھی تم ساتھیوں کے ساتھ کچھ روزے رکھنا چاہتا ہوں تو کہا دوسرے دن میں اس کے لئے کھجور کا ایک ڈبہ اور روح افزاجو پاکستانیوں کا خصوصا ًمغرب میں افطار کا مرغوب مشروب ہے لے گیا۔
اس نے کہا یہ کیا ہے؟میں نے کہا اس سے ہم روزہ افطار کرتے ہیں یہ سنت ہے تو میں ہنس پڑا اور اسے کہا کہ رسول پاکۖ کے زمانے میں یہ روح افزا والی سنت نہیں تھی یہ تو بعد میں ہمدرد والوں نے بنائی ۔بہر تقدیر عرض یہ ہے کہ اقوام جو بھی ہیں خصوصاً مسلمان انہوں نے زندگی کو سنجیدہ لینا ہے ورنہ خمیازہ تو ہوچکا اور بھی ہوگا۔
457