485

لاک ڈاون کے بعد ایک ارب سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے پاس جائیں گے، آئی ایل او

آئین نیوز : انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)نے چائلڈ لیبر کی عالمی سطح پر توجہ اور اس کے خاتمے کے لیے درکار اقدام اور کوششوں پر توجہ دینے کے لیے 2002 میں چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن کا آغاز کیا۔ ہر سال 12 جون کو عالمی دن حکومتوں، آجروں اور مزدور تنظیموں، سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو بچوں مزدوروں کی حالت زار اجاگر کرنے اور ان کی مدد کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔

بچوں کے حقوق کی معروف تحریک” چائلڈ رائٹس مومنٹ” خیبر پختونخوا کے سیکرٹریٹ د حوا لور نے چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن کے سلسلے میں بچوں کی مزدوری پر COVID-19 کے اثرات پر مشاورتی اجلاس کا اہتمام کیا۔ دا حوا لو رکے سی ای او، خورشید بانو نے چائلڈ لیبرز ڈے کی اہمیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں 2 کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں جبکہ چائلڈ لیبر کا تناسب ہمیشہ سے زیادہ رہا ہے۔

آئی ایل او کے مطابق ایک ارب سے زیادہ بچے لاک ڈائون کے بعد چائلڈ لیبر کے پاس جائیں گے جن میں سب سے زیادہ کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔لاک ڈائون کی موجودہ صورتحال نے بچوں کو مزید کمزور بنا دیا۔ خورشید بانو نے بتایا کہ وہ نہ صرف تعلیم کے مواقع کھو رہے ہیں بلکہ چائلڈ لیبر جیسے معاشرتی برائی کا بھی شکار ہونے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم لاک ڈائون کی صورتحال کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات، استحصال اور نفسیاتی پریشانی میں اضافے کا مشاہدہ کرسکتے ہیں جس کے بچوں پر دور رس، طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

د حوا لور کے پروگرام منیجر محترمہ شھوانہ شاہ بتایا کہ خاندانوں میں کم آمدنی اور مالی خشک سالی کے نقصان سے بچوں کی مزدوری کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے، پبلک اینڈ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے بنیادی تعلیم کے فروغ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دینا چائے۔ د لاس گل تنظیم کے پروگرام ڈائریکٹر مسٹر مزمل شاہ نے شیئر کیا کہ پاکستان پہلے ہی تعلیم کے مواقع میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے، جہاں آزادی کے 70 سال بعد بھی تعلیمی شرح 70 فیصد نہیں ہے لیکن اس لاک ڈائون نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ وباء کی وجہ سے وہ بچے جو چھوٹی چھوٹی ورکشاپس، دکانوں وغیرہ میں کام کر رہے تھے انہیں سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی کمزوری میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

بلو وینز تنظیم سے تعلق رکھنے والے جناب قمر نسیم نے تبادلہ خیال کیا کہ چائلڈ لیبر پر قانون سازی اور پالیسی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے قوانین اور متعلقہ کارروائیوں پر عمل درآمد نہیں ہے۔ عمران ٹکر پروجیکٹ کوآرڈینیٹر گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان نے کہا کہ، اگرچہ خیبر پختونخوا کی(کے پی) حکومت نے ملک میں پہلی بار چائلڈ لیبر پالیسی متعارف کرانے کا کریڈٹ لیا ہے جبکہ ان کا خیال ہے کہ پالیسی صرف فائلز اور کاغذوں تک محدودہے جبکہ عملی طور پر کچھ بھی نہیں.

انہوں نے کہا 1996 سے چائلڈ کا کوئی سروے نہیں ہے جبکہ یہ سروے خیبر پختونخوا میں 2016 سے فنڈذ کی فراہمی کے باوجود التوا کا شکار ھے۔کے پی کے حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کہ18 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور وہ یا تو چائلڈ لیبر میں مصروف ہیں یا سڑکوں پر “عمران ٹکر نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ درحقیقت کے پی کے اسمبلی میں 2010 میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کی گئی تھی لیکن حکومت اس پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے ۔

چائلڈ رائٹس مومنٹ (سی آر ایم)کے تمام ممبران نے تجویز پیش کی کہ ہمیں ان اجلاسوں کے نکات، مسائل اور تجاویز کو محفوظ کرنا چاہئے اور ایک مسودہ تیار کرنا چاہئے تاکہ ہم اسے وزارت تعلیم/سوشل ویلفئر/لیبر ڈپارٹمنٹ اور انسانی حقوق کے ڈپارٹمنٹ کے سامنے پیش کرسکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام سی ایس او کو چائلڈ لیبر سے متعلق قانون سازی کے نفاذ کے لئے حکومت پر زور دینا ہوگا اور چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ایک منظم مہم چلانے کے لئے حکومت عملی بنائی گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں