جب سے ہمارا ملک بنا ہے تب سے کرپشن کی باتیں بھی حکومتی ایوانوں میں گردش کرتی آرہی ہیںاور اسکے احتساب کے عمل کے نام پر عوام کو دھوکہ دے کر ان سے ووٹ بھی بٹور لیا جاتا ہے۔جبکہ کچھ حد تک سیاسی انتقام کی صورت میں احتساب کے عمل پر کچھ منتخب سیاسی حکومتیں عمل پیرا بھی ہوجاتی ہیں۔مگر یہاں سارے لوگ اس حمام میں ایک جیسے ہیں۔ اب تک ہم صرف بڑوں بڑوں کی کرپشن کی بڑی بڑی کہانیاں سنتے آرہے تھے۔جن کی کرپشن کا تعلق براہ راست غریب عوام کے ساتھ نہ ہوتا۔بلکہ سالانہ قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے تھے۔مگر اس سے ہٹ کر ہم نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نچلی سطح پر ایسی کرپشن کی کہانیاں نہ سنی تھیں اور نہ دیکھی تھیں۔جس کا براہ راست تعلق غریب عوام سے ہو اور انکا جائز حق تلف کیا جاتا ہو۔جس کے بدلے میں یہ غریب عوام افسرانِ بالا کی طرف مظلوم نظروں سے ان کے دفتروں سے نظر کرم کی آس لگائے ببیٹھے ہوتے ہیں۔مگر مجال ہو کہ ان کی طرف سے رتی برابر کا ترس ان غریب عوام پر آتا ہو۔ان کہانیوں میں ایک یہ بھی ہے۔جسے آپ رشوت یا کرپشن کہیں۔مگر کہانی افسرانِ بالا کی طرف سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے ریڑھی بانوں پر ظلم کی انتہا کی ہے۔تمام ٹی ایم اوز میں اور خاص کر ہمارے شبقدر بازار میں سڑک کنارے پھل اور سبزی فروشوں سے میونسپلٹی کا یہ عملہ یومیہ کے حساب سے برابر بھتہ وصول کرتے ہیں۔مگر کہانی میں ٹوسٹ تب آتا ہے کہ علاقہ کے کچھ پرلے درجے کے صحافی حضرات بھی اس عمل میں اس طرح شامل ہوتے ہیں کہ یہ لوگ بھی بھتہ کی صورت میں ان چھابڑی فروشوں سے مفت میں پھل،سبزی اور قصاب سے گوشت لیتے ہیں۔جب یہ لوگ انکار کرتے ہیں تو ردعمل کی صورت میں جاکر میونسپلٹی کے افسر بالا کو خبردار کرکے تجاوزات کے نام پر آپریشن کرکے ان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے مطابق ان کا سامان اور پھل سبزی سارہ قبضہ میں لیاجاتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ میرے سامنے بھی ہوا کہ ایک پھل فروش نے کچھ سیاسی اور صحافی حضرات کے روزانہ کے حساب سے مفت کی ڈیمانڈ پور ی کرنے سے انکار کیا تو ان لوگوں نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیل میونسپل آفیسر سے تجاوزات ہٹانے اور فٹ پاتھ خالی کرانے پر مجبور کیا۔میونسپلٹی کا عملہ آیا اور صرف اس بندے کے خلاف بڑا سخت قسم کا آپریشن کرکے باقی بازار میں حسب روایت کام کرکے چلے گئے۔خیر ہم نے بھی متعلقہ ایم این اے صاحب کے ذریعہ انکا سامان اور پھل واگزار کرایا۔مگر اگلے دن پھر ایسا ہی ان کے ساتھ کیا گیا۔اس دن اس پھل فروش نے میونسپلٹی کے عملہ کے ایک اہلکار کے ساتھ کچھ منہ مارا ماری کی جس کی وجہ سے اس اہلکار نے تحصیل میونسپل آفیسر کے سامنے لکیر کھینچتے ہوئے کہا کہ اگر اس پھل فروش کے خلاف آپ نے پولیس میں پرچہ نہ کٹوایا تو ہم پورا عملہ کام سے بائیکاٹ کرلینگے۔اگلے دن پھر ایسا ہی ہوا۔تو لوگ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس شکایت لے کے چلے گئے۔مگر اس کا رویہ اس سے بھی زیادہ سخت تھا۔اب پوری حکومتی مشینری اس ایک غریب پھل فروش کے خلاف ہوچکی ہے ۔ اب لوگ ایک وقت کی روزی کمانے میں بھی متعلقہ آفیسرز اور ان کے چمچوں کو اس میں حصہ دار بناتے ہونگے؟اگر اس بندے کو ایسا ہی بار بار تنگ کیا گیا تو یہ بندہ مجبورًا غلط راستہ اختیار کریگا۔مگر مجھے افسوس اس بات پر آتا ہے کہ ایک طرف یہ دونوں متعلقہ آفیسرز قابلیت کی کس بنیاد پر سترہ سکیل کی کرسی پر بٹھائے گئے ہیں؟جبکہ دوسری بات تحصیل میونسپل آفیسر اپنے عملہ کے ایک نچلی سطح کے آفیسر سے اتنے نالاں ہیں کہ ان کی خاطر غریبوں پر ناروا مظالم ڈھاسکتاہے؟ حلال،حرام، آخرت اورحساب کتاب کی باتوں کو تو ایک طرف کردیں بلکہ یہ دیکھا جائے کہ یہ جو ظلم ہورہا ہے کیوں اور کس لئے ہورہا ہے؟ان کہانیوں کے ساتھ ایک اور عجب کرپشن کی ایک غضب کی کہانی کا ہیکہ ہمارے ڈی گریڈ ہسپتالوں کی حالات کا تو کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں۔مگرتحصیل شبقدر کے ایک ہسپتال کی ایکسرے مشین کو خراب ہوئے کئی مہینے ہوگزرے۔جب لوگوں کے احتجاج پر بھی ایم ایس نے کوئی توجہ نہیں دی۔تو پھر بات ضلعی ہیلتھ آفیسر کے پاس چلی گئی مگر پھر بھی بات نہ بن سکی۔بالآخر ہیلتھ سیکرٹری کو خبردار کیاگیا۔مشین فورا ٹھیک کرادی گئی۔اب ہسپتال کے میڈیکل آفیسر کی اس ضمن میں وہ کرپشن ختم ہوگئی جو وہ مریضوں کو باہر کے پرائیویٹ لیبارٹریوز سے ٹیسٹ اور ایکسرے کراتے تھے جس میں انکا فی ٹیسٹ یا فی ایکسرے کمیشن ہوتا تھا۔اب کی دفعہ متعلقہ آفیسرز نے اپنے بندوں کے زریعہ مریضوں کو ایکسرے مشین کی طرف راستہ کے بجائے پھر سے باہر پرائیویٹ لیباٹریز سے ٹیسٹ کروانے کے راستے دکھانے شروع کردئیے۔اس طرح اس آفیسر کی کرپشن اور رشوت کا راستہ روکنا نہ صرف مشکل ہے۔بلکہ ناممکن بھی ہے۔اسکے علاوہ واپڈا اور ایریگیشن کے محکموں میں بھی جو کچھ ہوتا ہے۔ان کی کرپشن کی اپنی الگ الگ کہانیاں ہوتی ہیں۔دوستو!اب آپ انصاف کیجئے کہ ان جیسے کرپشنز اور رشوتوں کے راستے کیسے روکے جاسکیں گے؟ لیکن ان بڑے بڑے آفیسرز کو غریب اور بیچارے عوام پر تھوڑا بھی ترس نہیں آتا۔پتہ نہیں انکے سینوں میں پتھر کے دل ہوتے ہیں یا گوشت کے؟ ان کو اپنے بال بچوں کی بھی فکر نہیں ہوتی؟لیکن مجھ پر ایک بات واضح ہوگئی کہ یہ آفیسرز اسلئے بلا خوف و خطر کرپشن کی اس گنگا میں بے فکری سے نہا رہے ہیں۔کہ ان کے بڑوں کا ان چھوٹے آفیسرز کے سروں پر ہاتھ ہوتا ہے۔ ان کو بھی باقائدہ حصہ بھجوایا جاتا ہے۔اس طرح سارے اس حمام میں ایک جیسے نہارہے ہوتے ہیں۔
418