395

پشاور یاد آتاہے(پہلی قسط) – مسرور احمد مسرور

پشاور کیوں یاد نہ آئے کہ اس سے جڑی بے شمار یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں جنہیں کسی طور بھلایا نہیں جاسکتا یہی تو وہ شہر ہے جس نے مجھے چلنا پھرنا سوچنا سمجھنا لکھنا پڑھنا اور نہ جانے کیا کیا کچھ سکھایا یہی وہ شہر ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کی سلور جو بلی منائی یہ پشاور ہی تو تھا جس نے مجھے زندگی کے اس مقام تک پہنچایا کہ جہاں سے میں عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل ہوا جہاں میرا بچپن لڑکپن اور جوانی کے خوبصورت ایام ہنستے کھیلتے گزرے جہاں سے میں نے اپنے سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی پشاور سے ہی میں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا یہاں ہی سے میں نے سٹوڈنٹس پالیٹکس Student Politicsکی شروعات کی جہاں میں نے صوبہ سرحد کی تمام قد آورسیاسی شخصیات کے انٹریوزکئے جہاں میں نے بزم شاہین اوربزم خیام کے پلیٹ فارم سے ا دبی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا آغاز کیا پشاور سے میں نے قانون کی تعلیم مکمل کی یہاں میں نے رومانوی زندگی کامزہ بھی لیا اسکول کالج اور یونیورسٹی میں دوست بنائے اور دوستی نبھائی پشاور سے میں نے شاعری کا شوق بھی پالا پشاور میں رہتے ہوئے میں نے صوبائی اسمبلی کی رپورٹنگ کے فرائض بھی انجام دیئے اسکے علاوہ بھی پشاور سے متعلق بہت سی دوسری باتیں ہیں جو میری پشاوری زندگی کے لئے اہم ہیں۔پشاور سے وابستہ تمام یادوں کواحاطہ تحریر میں لانا چاہتاہوں اگر ان تمام یادوں کی تفصیل بیان کی جائے تو ایک کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے میں ان تمام یادوں کو اہل پشاور سے شیئر کرنا چاہتاہوں کئی دوست احباب دنیا سے رخصت ہوچکے جو باقی ہیں ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میری اس تحریر کے شائع ہونے کے بعد کچھ دوستوں سے رابطہ بحال ہوسکے۔میرے والدین کا تعلق ہندوستان کی مسلم ریاست بھوپال سے تھا جوتقسیم ہند کے دو تین سال بعد پاکستان آگئے میرے والد کیپٹن ڈاکٹر کے ایم مسعود نے ابتدائی تعلیم اور یونیورسٹی کی تعلیم بھوپال سے مکمل کی اور ڈاکٹری کی تعلیم بمبئی یعنی آج کے ممبئی سے مکمل کی پہلے کراچی آئے پھر پشاور میں رہائش اختیار کی یہاں صدر میںکنٹونمنٹ ہسپتال صدر میں میڈیکل آفیسر کی پوسٹ پر متعین رہے مجھے ہسپتال سے تھوڑے ہی فاصلے پر قائم گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ٤ میں داخلہ دلوایا گیا سرکاری اسکول تھا لیکن ہر لحاظ سے معیاری حیثیت کا حامل تھا والد صاحب جب میڈیکل آفیسر کے عہدے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پشاور شہر میں علاقہ ڈبگری کے محلہ جوگن شاہ میں رہائش اختیار کی اور مجھے خیبر بازار کے قریب گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ٣ میں داخلہ دلوایا گیا جہاں سے میں نے اپنی میٹرک کی تعلیم مکمل کی یہ سال تھا ١٩٦٥ئ کا جب میں نے میٹرک کی سنہ حاصل کی تعلیم کا سفرجاری رہا مجھے کچھ عرصے ا سلامیہ کالج میں جہاں قابل ادب نواز اساتذہ سے علم سیکھنے کا موقع ملا ان میں احمد فراز محسن احسان، خاطر غزنوی عابد علی سے اردو اور انگریزی کے اسباق پڑھے اور سیکھے یہ تمام قابل احترام اساتذہ تھے آج دنیا میں نہیں اللہ تعالی مرحو مین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔پشاور میں ڈبگری کے محلہ جوگن شاہ میں ٢٥ سال سے کچھ زائد عرصہ گزارا۔ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر سکھوں کا بہت بڑا گردوارہ موجود تھا جہاں سال میں ایک دفعہ سکھ نظر آتے تھے ورنہ یو نہی بند پڑا رہتا تھا لیکن ہمارے کراچی آجانے کے بعد آس پاس کے گھروں میں سکھ آباد ہونا شروع ہوگئے اب وہاں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہوچکے ہیں اپنی دکانیں اپنے کاروبار جمائے ہوئے ہیں محلہ جوگن شاہ اب چھوٹا سا سکھ نگر بن چکا ہے ہمارا گھر اب سکھوں کے ریسٹ ہائوس کے طور پر استعمال ہورہا ہے محلے میں پولیس کا پہرہ بھی ہے پرانے تمام لوگ یا تو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں یا دوسرے علاقوں میں آباد ہوگئے ہیں چند ماہ قبل پشاور جانے کا اتفاق ہوا تو اپنے دوست احباب کے حوالے سے مکمل سناٹا نظر آیا کوئی جان پہچان کا نہ ملایہ صورتحال میرے لئے بہت افسوسناک تھی۔(جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں