564

پاکستان میں ذخیرہ ا ندوزی اور ناجائز منافع خوری کا بڑھتا ہوا تجارتی رجحان – حافظ ایوب قاسمی

ماہرینِ عمرانیات کسی بھی سماج کی تین اہم بنیادیں قرار دیتے ہیں،فکر وفلسفہ،معیشت اور سیاست۔اِن میں سے معیشت کا بنیادی کا م ما دی احتیاجات کا تعین اور دستیاب وسائل سے سہولت کے ساتھ ان کی تکمیل کا انتظام کرنا ہے تا کہ معاشرہ بَحیثیتِ مجموعی ترقی کر سکے لیکن اگر معیشت کے پس منظر میں ناجائز منافع خوری اور اپنی تجوریاں بھرنے کا فلسفہ کار فرما ہو تو ایسے معاشی نظام میں اوّلین حیثیت سرمایہ کو دی جاتی ہے اور انسانیت سمیت باقی سب چیزیں اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری اسی ظالمانہ معاشی نظام کے استحصالی حربے ہیں۔زَر کی ذخیرہ اندوزی کو اصطلاح میں”اکتناز”جب کہ اجناس کی ذخیرہ اندوزی کو”احتکار”کہاجاتاہے۔ ذخیرہ اندوزی کوکسی بھی صالح معیشت میں ایک قبیح فعل تصور کیا جاتا ہے۔ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری انسانی زندگی کے لیے مَوت سے زیادہ بھیانک ہے۔ذخیرہ اندوزی سے مال وزَر مخصوص طبقے میں محدود ہو جاتا ہے جس سے اجتماعی زندگی کو مفلوک الحال بنا دیا جاتا ہے۔ ایک محدود طبقے کی ناجائز ترقی اجتماعی تنزل کا باعث ٹھہرتی ہے۔وسائل کی یہی سرمایہ دارانہ مسابقت سماج میں سرطان کے پھوڑے کی طرح سرایت کر جاتا ہے۔سماج کا یہ پھوڑا دولت کی فراوانی کی وجہ سے عیاشیوں میں مبتلا ہوکر سعادتِ اُخروی سے غافل ہو جاتا ہے جب کہ دولت سے محروم طبقہ بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے غیر قانونی راستوں پر چل پڑتا ہے اور اخلاقی بے راہ روی کی گہری کھائی میں گِر کراُخروی کامیابی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔نتیجتاً پورا سماج وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے معاشی کسمپرسی کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال سے دوچار ہوجاتا ہے۔وطنِ عزیز پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو صد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میںبیشتر معاملات غیر اسلامی اصولوں پرطے کئے جاتے ہیں۔ناقص معاشی انتظام کی وجہ سے وطنِ عزیز اجتماعی مادی احتیاجات کی احسن تکمیل کی بجائے معیشت کی کالی بھیڑیوں کے درمیان ناجائز منافع کی دوڑ کے میدان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ذخیرہ اندوزی کے بد مست ہاتھی فاقہ کشوں کو اپنے پاؤں تلے روند رہے ہیں۔ناجائز منافع خوری کے باؤلے کتے مجبور بیمار انسانیت کے اجسام نوچ رہے ہیں۔ذخیرہ اندوزی کی آڑ میں ناجائز منافع کمانے کے کالے کرتوتوں کی وجہ سماج کی حالت ناگفتہ بِہ ہے۔عالمی بینک کے رپورٹ کے مطابق ١ڑسٹھ برس بعد پاکستانی معیشت کو منفی گروتھ کا سامنا ہے۔ایسی بحرانی کیفیت 1951میں پیدا ہوئی تھی۔پاکستان اکنامک سروے آف پاکستان کی بات کرتے ہوئے مشیرِ خزانہ نے بتایا کہ سال 2020ء میں جی ڈی پی کی سا لانہ شرحِ نمو0.38 فی صد رہی۔وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق ملکی معیشت کی شرح ترقی منفی1.57رہ سکتی ہے۔مہنگائی کی موجودہ شرح گزشتہ دس سال کی بَلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے گیارہ ماہ میں مہنگائی میں { OL 1132 }11.32فی صد اضافہ ہوا۔ایک سال میں آلو96 فی صد،چکن41فی صد،دال ماش55 فی صد اور دال مونگ83 فی صد مہنگا ہوا۔ایل پی جی کی قیمت میں رواں ہفتے میں دو بار فی کلو پانچ پانچ روپے کا اضافہ کیا گیا۔ناجائز منافع خوری پر عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس خود معترف ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمدنے کورونا از خود نوٹس کیس میں ریمارکس دیئے ہیںکہ ایک جانب لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں تو دوسری جانب اسی وائرس کے بَہ دولت چند لوگ راتوں رات اَرب پتی بن کر دولت کے انبارلگا رہے ہیں۔وطنِ عزیز میں ”چینی اور آٹا اغوا برائے تاوان”کا گھناؤنا کھیل بھی کھیلاجاتاہے۔چینی کے ذخیرہ اندوزمافیا کی بات کی جائے تو فروری2020کی انکوائری رپورٹ کے مطابق چینی پر اضافی سبسڈی سے J.D.WاورJKColony2ن ے55کروڑ،اَلْمُعزاور تھل کارپوریشن نے 40کروڑR.Y.K,ETIHAD,اورTwoStar گروپ نے45کروڑ،اور ہنزہ،انڈس ،فاطمہ،شوگرملز نے بالترتیب43,15,25کروڑ روپے اضافی کمائے۔چینی مارکیٹ سے غائب ہونے کی وجہ سے 52 روپے فی کلو کی بجائے80روپے فی کلوبلیک پر فروخت ہونے لگی۔اسی طرح آٹے کے مصنوعی بحران میں آٹا 45روپے فی کلو سے بڑھ کر70روپے فی کلو فروخت ہونے لگا۔فروری2020 گندم انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں3.355 ملین میٹرک ٹن گندم صرف افغانستان بھیجا گیا ۔ کثیر مقدار میں سمگل کیا گیا گندم اس کے علاوہ ہے۔جب کہ پیداورمیں کمی اور طلب میںزیادتی کا مسئلہ پہلے سے وطنِ عزیز کو درپیش تھا۔پاکستان تیل کی ضرورت کا 70 فی صد سے زائد حصہ درآمد کرتا ہے۔اِس خام تیل کوRefine کرکے آئل مارکٹنگ کمپنیوں کے ذریعے ملک بھر میں سپلائی کر دیا جاتا ہے۔رواں ماہ کی یکم تاریخ سے حکومت نے تیل کی قیمت میں سات روپے کی کمی کا اعلان کیا اور اِسی رات سے پٹرول کے مصنوعی بحران کا آغاز ہوا۔تقریباً 25 دن تک آئل کی بڑی بڑی کمپنیوں نے تیل کاخود ساختہ بحران قائم رکھا اور اِس دوران 76 روپے کی ایک لِٹر پٹرول کے عِوض 250روپے بٹور کر اپنی تجوریاں بھر دیں۔گر چہ 11 جون کو حکومت نے بعض مشہور پٹرول پمپوں کو ایک کروڑ روپے جرمانہ کیا تھا لیکن اسی مہینے کی 26تاریخ کو پٹرول کی قیمت میںفی لیٹر25.58روپے کا تایخ ساز اضافہ ہوا جس سے خالصتاً پٹرول پمپ سرمایہ داروں کے مال میں ایک ہی رات7 ارب روپے کا اضافہ ہو ا کیوں کہ پٹرول کیBase Price،ٹیکس اور حکومتی اخراجات جو ں کے توں ہیں۔یعنی کہ حکومت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا بلکہBase Price میں 90 فی صد اضافے سے عوام کو کئی اَرب روپے کا ٹیکہ لگا لیا۔حال آں کہ اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی کے مطابق اوگرا کے قوانین کے مطابق ان آئل کمپنیوں کے پاس اکیس دن کا سٹاک رکھنا لازمی ہے۔صحت اور میڈیکل شعبہ کے حوالے سے بھی وطنِ عزیز کے حالات تسلی بخش نہیں۔1978 میںWHOکے الما آتا اعلامیہ کے مطابق”صحت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں مکمل جسمانی،نفسیاتی اور سماجی بہتری ہو،صرف بیماری یا کمزوری کی عد م موجودگی نہ ہواور یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔”لیکن مملکتِ خداداد میںمجبور بیماروں پر کیا گزرتی ہے؟ اس کاا ندازہ بی بی سی کے26جون کے رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے نوّے فی صد ڈاکٹرکمیشن کے لیے دوائی لکھتے ہیں،ایک ہی مرض کے سات سات ٹیسٹ کمیشن کی خاطر مریض کو لکھ دیئے جاتے ہیں۔کرونا وائرس بیماری کے خلاف کسی حد تک مؤثر دواؤں اور دیگر طبی حفاظتی سامان کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ڈیکسا میتھا زون انجکشن جس کی ریٹیل پرائس 225روپے تھی اب مارکیٹ سے بلیک میں ایک ہزار روپے سے زائد کی قیمت میں ملتی ہے۔کلوروکین فاسفیٹ کی قیمت میں ایک ماہ کے دوران 98فی صد اضافہ ہوا اور مارکیٹ میں اپنی اصل قیمت کی بجائے کئی گنا اضافے سے فروخت کیا جا رہا ہے۔آکسیجن سلِنڈر کا ریگولیٹر 800روپے کی بجائے آٹھ سے دس ہزار روپے قیمت پر بَہ مشکل دست یاب ہے۔1500روپے کا13لیٹرکا آکسیجن سلنڈرتیس سے چالیس ہزار روپے کا ملتا ہے۔City42 TVکے اِک رپورٹ کے مطابق موجودہ دورِ حکومت میں ادویات کی قیمتوں میںدو سَو فی صد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دوسالوں میں چھے بارادویات کی قیمتوں میںاضافہ ہوا۔ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوری اور معاشی استحصال کی یہ کساد بازاری دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے شاخسانے ہیںجن کا مستقل حل سرمایہ دارانہ نظا م کاسفینہ ڈوبنے میں مضمر ہے تاہم وقتی طور پرضروری اشیا کی قیمتوں کو سختی سے کنڑول کرنے،نجی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے،غیر پیداواری شعبوں پر لاگت ترک کرکے پیداواری شعبوں کو ترقی دینے اور مافیاکے خلاف شفَّاف قانونی کارروائی کرکے ناجائز منافع قومی بیت المال میں جمع کرنے جیسے اقدامات کرنے حالات میں بہتری کی طرف لائی جا سکتی ہے جو اس وقت کاسب سے اہم قومی،انسانی،معاشرتی اور دینی تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں