امریکی پابندیاں دشمن کا اسلامی اقوام کا مقابلہ کرنے، محاصرے اور ہر قسم کی مشکلات پیدا کرنے کا طریقہ اور حربہ ہے جس میں اقوام کو اقتصادی معاشی پابندیاں عائد کر کے ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے جائز حقوق اور مطالبوں سے پیچھے ہٹ جائیں ۔ اگر ہم ابتدائی اسلام پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ اسلام دشمنوں نے بھی مسلمانوں پر اسی طرح کی اقتصادی پابندیاں عائد کیں تاکہ وہ اپنے رستے سے ہٹ جائیں قرآن کریم نے اپنی چند آیتوں میں مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی کہ کس طرح ان پابندیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران پر یکطرفہ امریکی پابندیاں ابتدائی اسلام کی پابندیوں کا ایک سلسلہ ہے جو ابھی بھی جاری ہے؛ امریکا یکطرفہ طور پر اس بین الاقوامی معاہدے سے دستبردارہوگیا اور اس طرح امریکی پابندیاں ایران پر جاری و ساری ہیں اور ایرانی عوام پر اقتصادی دبائو اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے لیکن ایرانی عوام اور اعلیٰ حکام نے اس کے مقابلے میں بھرپور مزاحمت کی۔
ایرانی عوام کی اس بھرپور مزاحمت نے امریکا اور اس کے دشمنوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پابندیوں کا یہ ہتھیار بھی دشمن کے ہاتھ سے نکل جائے گا ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدرٹرمپ کی کارکردگی دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکن ورلڈولیج کے نعرے اور ون پیپل ون ورلڈ کے نعرے کو تبدیل کردیا گیا ہے۔اگرہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ پرنگاہ ڈالیں توہم دیکھتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بہادرامریکی حملہ آوروں کے خلاف لڑنیوالے امریکی ہندوستانیوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے اور ہالی ووڈ کی چند فلمیں دیکھنے والے کو یہ سمجھانا چاہتی ہیں کہ ہندوستانی شیطان اورقاتل لوگ تھے۔ امریکی حکومت کوانہیں ایجنڈے سے ہٹانے کاحق ہے۔ فلسطینی امن مذاکرات اور یروشلم میں قابض حکومت میں بھی یہی نقطہ نظر دیکھا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ سے پوچھا جانا چاہئے کہ “اب فلسطین کہاں ہے؟”پرامن ایٹمی پروگرام پر برسوں کی بات چیت، جس کے نتیجے میں ایران اور P5 + 1،کے مابین ایٹمی معاہدے پردستخط ہوئے،مشرق وسطیٰ اوردنیا کو اس جیت کے معاہدے سے بہت فائدہ ہوا۔ 8 مئی 2018 کو امریکہ وائٹ ہائوس میں ایک ٹی وی شو میں، یکطرفہ طور پر اس بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہو گیا۔ یہ اعلان امریکہ کے غیرذمہ دارانہ اورغیرقانونی نقطہ نظرکی ایک اورعلامت ہے۔امریکی حکومت کا یہ اقدام ایک اورمضبوط اشارہ ہے کہ امریکی حکومت کسی بھی حالت میں کسی بھی طرح قابل اعتبارنہیں ہے، اوراس سے بین الاقوامی امن وسلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
عالمی برادری کو امریکی حکومت کے غیرذمہ دارانہ سلوک کا فوری جواب دینا چاہئے اور مطالبہ کرنا چاہئے کہ امریکا کو اپنے طرز عمل جیسا کہ ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ اورغیرقانونی طور پر دستبرداری، ایرانی عوام پر دوبارہ جابرانہ پابندیاں عائد کرنے،اوردوسرے ممالک پر بھی دبائو ڈالتا ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں تعاون کریں۔ اس طرزعمل میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کو بین الاقوامی برادری کے ایک ممبر ریاست کی حیثیت سے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ دنیا کو امریکا کی قوموں کے خلاف خطرناک اقدامات اور اپنے ناجائز مفادات کو یقینی بنانے کے خطرات سے بھی گاہے بگاہے آگاہ کیا ہے اور ہمیشہ تاکید کی ہے کہ اگر اس معاملے میں امریکا کے ساتھ مناسب رویہ نہ اپنایا گیا تو دنیا کے نظام کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانی حکومت نے ایٹمی قرارداد کے معاہدہ 36 پر 10 مئی 2018 کو عملی آغاز کرتے ہوئے ایٹمی قرارداد کے دیگر ممبران کی درخواست پر سفارتکاری کو ایک اور موقع فراہم کیا تاکہ ایٹمی قرارداد کے جزئی اور عمومی نکات پر عمل درآمد کیا جا سکے اور اس کے خاتمے کو موخر کر دیا ۔ دنیا میں سب سے زیادہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کا سخت ترین معائنے کا نظام ابھی بھی جاری ہے۔ ایران کے پرامن جوہری پروگرام جو کہ مکمل کنٹرول اور نگرانی کے تحت جاری ہے اس کے بارے میں بین الاقوامی رپورٹس بھی یہی دکھاتی ہیں کہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کا مقصد صرف اور صرف بجلی بنانے،طبی اخراجات کی فراہمی اور ایرانی عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔ دوسری طرف،امریکی حکومت پر 2222 کی قرارداد کی خلاف ورزی کرنیکی بین الاقوامی ذمہ داری عائد ہے اور اسے 200 ارب ڈالر سے زیادہ کے ایران کو ہونے والے نقصانات کیلئے جوابدہ ہونا چاہئے۔
حال ہی میں، یہ افواہیں پھیل رہی ہیں کہ امریکہ سلامتی کونسل میں ایک مسودہ قرارداد پیش کرکے ایران کیخلاف اسلحے کی پابندی بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے،لیکن یہ واضح رہے کہ بین الاقوامی تعلقات پر حکمرانی کرنے والے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کے مطابق، وہ اپنے لئے حقوق کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔لہٰذا، چونکہ امریکہ یکطرفہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے الگ ہوگیا اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور قرارداد 2231 کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی ناقابل تردید انداز میں خلاف ورزی کی، لہٰذا وہ یہ دعویٰ کرنیکی حیثیت میں نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اسے قانونی حقوق حاصل ہیں۔ اس قرارداد کو ایران کے خلاف بہانے کے طور پراستعمال کریں یا کوئی نئی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کریں۔ بہرحال، دنیا کے ممالک خصوصا ًخطے کے ممالک کو دنیا اور خطے کے مستقبل کیلئے امریکہ کے تباہ کن منصوبوں کے بارے میں چوکس رہنا چاہئے، اور جتنی جلدی ممکن ہو امریکی اور کارپوریٹ اثر و رسوخ روکنے کیلئے خودکفیل ہونے اورقومی پیداوار میں اضافے پرانحصار کرنا چاہئے۔امریکہ انسانی اقدار سے اس حد تک دور ہو چکا ہے کہ اس نے متعدی کورونا وائرس کے پھیلا ئوکے باوجود یہاں تک کہ لوگوں اور مملکت ایران کے خلاف اپنی غیرانسانی حرکتوں کو نہیں روکا، اورایران کے خلاف اپنی جابرانہ پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھنے سے، ایرانی عوام کو ضروری طبی سامان تک رسائی سے بھی روکا ہے۔ امریکہ کو اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایران کو ہونے والے نقصان کی تلافی کرکے ایک بار پھر عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کریں اورتمام یکطرفہ پابندیوں کو ختم کرکے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں واپس آجائیں اور اپنے طرزعمل کو بہتربنانے اورسطح کو بلند کرنے کی کوشش کرے ۔
اسکے نقطہ نظر کو دوسرے ممالک کی سائنسی نمو اور ترقی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
ذیل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے جانب سے اقوام متحدہ اور کچھ ممالک کے خلاف ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کو لایا گیا ہے ۔
1- عالمی تجارتی تنظیم: ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن پر امریکہ کیساتھ غیرمنصفانہ ہونیکا الزام عائد کرتے ہوئے، ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگرامریکہ نے اپنے طرزعمل میں تبدیلی نہیں کی تو وہ انخلاء کردیںگے۔
2۔ نفتہ،اپنے دور حکومت کے آغاز پر ٹرمپ کا سب سے اہم ہدف نفاٹا معاہدے کی بحالی یا ختم کرنا تھا، جسے ٹرمپ تاریخ کا بدترین خیال کرتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اس معاہدے سے روزگار میں بہت زیادہ نقصان ہوگا۔
(چین)چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ مزید پھیلتی جارہی ہے، اسکے ساتھ ہی امریکہ میں درآمد شدہ چینی سامان پر محصولات بڑھ رہے ہیں۔