541

ہمیں کب تک لڑنا ہے اور کس کس سے؟ – عالم زیب خان

چار، پانچ ماہ ہوئے پوری دنیا کرونا وبا سے نبرد آزما ہے۔ مختلف ممالک اپنے اپنے انداز سے اس وباء سے نمٹ رہے ہیں۔جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہمارا اور کرونا کے بیچ شروع دن سے دست بدست لڑائی جاری ہے۔ اس لڑائی میں کرونا کا کتنا نقصان ہوا، معلوم نہیں۔ البتہ ہماری 4900 سے اوپر قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔
اتنی جانیں گنوانے کے بعد بھی چاروں سمت یہی صدا گونج رہی ہے، ” ڈرنا نہیں، لڑنا ہے”۔ ارے بھائی کس سے لڑنا ہے، کب تک اور کیسے لڑنا ہے پھرجب سامنے والا انتہائی شاطر، جدید ہتھیاروں سے لیس ہو اورکرونا کے اس پار بغیر تیاری اوربغیر رہنما کے ایک بے ہنگم بھیڑ۔ ایسے، جیسے کسی نا تجربہ کار سپاہی کو کسی چنگیزی فوج کے سامنے زبردستی دھکیلا جائے۔ کہ چل بھیا لڑ۔
کچھ دن پہلے ایک دوست کا فون آیا، میں نے تاخیرسے فون اٹھایا، وہ جھٹ سے بولے، ” ارے بھائی فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہو”، میں نے پوچھا خیر تو ہے، جواب ملا خیر ہی ہے بس کسی کو فون ملا یاتو گھنٹی کی بجائے کرونا پر تقریر شروع ہو جاتی ہے، کبھی ڈراتا ہے تو کبھی لڑواتا ہے۔



فون کے بعد مجھے بھی لگا کہ واقعی ہم نے یہ لڑنے لڑانے والا محاذ ہر جگہ کھولا ہے۔ اسمبلی کا فلور ہو، یا کسی جلسہ گاہ کا سٹیج، کوئی ٹی وی ٹاک شو، یا کسی سرکاری، غیر سرکاری دفتر کی یاترا، نہ کوئی دلیل نہ سننے سمجھنے کی صلاحیت۔ اب بات یہاں تک آگئی کہ کوئی آفت ہو یا کوئی وبا، ہمارے پاس اس کا بھی واحد حل لڑنا ہی ہے۔
معلوم نہیں کرونا کی وباء میں یہ نعرہ جنگ کس نے بلند کیا کہ ” کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے”۔ اور پھر اتنا پھیلا کہ ٹی وی، سوشل میڈیا، حکومتی پریس کانفرنسوں سے ہوتا ہوا سیدھا سیل فون کے ذریعے ہمارے کانوں کی چادر اور چار دیواری کو پار کیا۔ اگر کوئی یہ کہتا کہ کرونا سے ڈرنا نہیں بچنا ہے تو شاید کچھ بچت ہو جاتی۔
لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں، ہم نے جان بوجھ کر اپنی عادات و اطوار سے ایسی مقناطیسی قوت تخلیق کی ہے کہ لڑنے اور لڑانے والے سارے کام ہمارے پلے پڑجانے ہیں اور اپنے دماغ کے ایک چیمبر میں کوئی لڑاکہ خانہ تعمیر کیا ہے جو ہمیں روز یاد دلا رہا ہے کہ بھیا ایک ہاتھ سے کرونا سے تو لڑ رہے ہو لیکن بھولنا نہیں دوسرے ہاتھ سے ٹڈی دل سے بھی لڑنا اور کچھ توانائی ڈینگی کیلئے بھی چھوڑ کے رکھنا، کچھ دنوں بعد کام آئیگی۔



شکر ہے ابھی کچھ دنوں سے موبائل فون کمپنیوں نے وہ لڑنے والی فلم ہٹا کر وہاں قدرے درمیانہ راستہ اپنایا ہے۔ لیکن لڑنے والا کام اتنی آسانی سے جائیگا نہیں۔ کیونکہ اس دن ٹی وی پر ڈونکی کنگ والا گانا آیا تو میری دو سال کی بیٹی فورًا بولی، “بابا لڑنا ہے” جس کا مطلب کہ اس کی آواز اونچی کرو۔ پھر کیا، تین چار بار وہ گانا ریورس کرنا پڑتا ہے اور تب تک سیز فائر نہیں ہوتا جب تک اس کا دھیان دوسری طرف نہ ہو۔ اب بچوں سے کیا گلہ ذرا بڑوں کا حال دیکھو۔ آج کل ہر کوئی ارطغرل بنا پھر رہا ہے ۔ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کے بعد کچھ لوگوں کا تو خون جوش مارنے لگتا ہے اور سوچتے ہیں کہ کاش انہیں بھی کوئی گوردوغلو (ڈرامے کا پہلا مرکزی ولن) ملے اور وہ اسے پھڑکا دے اور تو اور سوشل میڈیا پر چھوٹے دورانئے کی ویڈیوز بھی بنائی گئی ہیں جہاں بچے، بڑے سب گھوڑوں پر بیٹھ کر سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور جن کو گھوڑوں کی سہولت میسر نہیں وہ بھینسوں اور گدھوں پر سوار ہو کر ارطغرل بننے کی آرزو پوری کررہے ہوتے ہیں۔ جن میں کچھ بیچارے سر کے بل زمین پر گرپڑتے ہیں۔ پر کیا کریں، لڑنا بھی تو ہے۔
ڈونکی کنگ کے گانے اور ارطغرل ڈرامے کے بعد بھی جن کو چین نہیں آتا وہ اپنی تشنگی کو سوشل میڈیا پر بھرپور گالم گلوچ کی صورت میں یا پھر آج کل انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ کھیلی جانیوالی پب جی گیم کھیلنے سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں پوری گیم مرنے، مارنے اور لڑائی لڑنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس گیم کے مسلسل کھیلنے کی وجہ سے کچھ بچوں نے خود کشیاں بھی کی ہیں۔ البتہ کچھ والدین اور محکمہ پولیس کی کوششوں سے حکومت نے پچھلے دنوں اس گیم کو بین کر دیا۔ یہ پابندی کب تک رہتی ہے معلوم نہیں کیونکہ بات عدالت تک پہنچی ہے۔




یہاں ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم ایک دن خیبر پختونخوا میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کے دوران کشمیر جہاد پر بات کر رہے تھیں۔ اس دوران لوگوں کا جذبہ دیکھ کر قاضی صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے’ ” مجھ سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کی بڑی تعداد کشمیر اور افغانستان کے جہاد میں حصہ لے رہی ہے، اس کی کوئی خاص وجہ، تو میں نے جواب دیا کہ ہمارے لوگ بڑے جنگجو ہیں اگر ہم انہیں وہاں نہ بھیجیں تو یہ آپس میں لڑ پڑینگے۔” قاضی صاحب کی اس بات پر پوری جلسہ گاہ قہقہقوں سے گونج اٹھا۔ قاضی صاحب مرحوم نے یہ بات سنجیدگی سے کہی تھی یا ازراہ مزاح، خدا جانے، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے روزمرہ سلیب میں لڑنے والا مینیو اتنا بھاری ہے کہ اگر کوئی لاہور کی سیر پر چلا جائے، تو واہگہ بارڈر پہنچ کر شام کی پریڈ میں خوب نعرہ بازی کرکے ہندوستان والوں کے ساتھ بھی حساب برابر کر لیتا ہے ۔



پتہ نہیں یہ لڑائی کا جنون ہمارے اعصاب پر کب سے سوار ہے۔ شاید تب سے جب ہم نے سوویت یونین یعنی موجودہ روس کے ٹکڑے ٹکڑے کئیتھے لیکن ابھی 2018 کی بات ہے کہ روس نے اپنے ٹکڑوں کو اِدھر ادھر کر کے کامیابی کے ساتھ فٹ بال کے عالمی کپ کا انعقاد کیا اورپوری دنیا کو امن کا پیغام بھیجا، البتہ اس وقت چارلی ولسن (امریکی کانگرس مین، افغان جنگ کا ارکیٹکٹ اور ضیا ء الحق کا حسب ضرورت دوست) نے جو بندوق ہمارے کندھے پر فٹ کی تھی وہ اب تک وہیں ہے اور نہ کبھی ہم نے اس کو نیچے رکھنے کی زحمت کی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اس لڑائی سے تھکی ہوئی قوم کس کے پاس جائے کس کو فریاد کرے کہ وہ ہمیں ان لڑائیوں کے خول سے نکالیں۔ حکومت کے پاس؟ وہ تو خود شروع دن سے اپوزیشن کے ساتھ لڑ رہی ہے اور اگر اپوزیشن قرنطینہ میں چلی جائے تو پھر آپس میں لڑنے لگتے ہیں۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ برطانوی ناول نگار اور شاعر ولیم گولڈنگ نے اپنے مشہور ناول لارڈ آف دی فلائیز ہمارے بارے میں لکھا ہو جس مین ان کا دعویٰ ہے کہ انسان کے مزاج میں برائی کا عنصر غالب ہے اور جب اسے موقع ملے گا یہ بد سے بد تر ہونے کی روش نہیں چھوڑیگا۔اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں ڈراموں، ناولوں، دیو مالائی کہانیوں اور تعویز گنڈوں کے نرغے میں غلاموں کی طرح جینا پڑیگا۔ نہیں تو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کہ جینا ہے یا لڑنا ہے- اگر جینا ہے تو بچنا ہے اور اگر لڑنا ہے تو لڑائی میں ممکنہ نقصان کیلئے بھی تیار رہنا پڑتا ہے۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں