456

ایم این اے اور ایم پی اے کے لئے تعلیمی شرط؟ – اعجاز احمد

اگر ہم کسی ملک کی اقتصادیات کو دیکھیں کہ موجودہ دور میں وہی ممالک ترقی اور کامرانیوں کی منزلیں طے کر رہے ہوتے ہیں جو موجودہ دور میں زیادہ سے زیادہ تعلیم یا فتہ ہوں۔ موجودہ دور کو نالج بیسKnowledge Base یا علمی دور کہا جاتا ہے۔ اس وقت 8ارب کی دنیا میں 2 ارب مسلمان ہیں مگر بد قسمتی سے مسلمانوں کی حالت دنیا کی تمام قوموں سے ابتر ہے اور اسکی ایک ہی وجہ ہے کہ مسلمان موجود ہ دور کی تعلیم ،سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی قابل ذکر کا رنامہ انجام نہ دے سکے ،جسکی وجہ سے مسلمان انتہائی نا گفتہ بہہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا کے جن جن ممالک میں تعلیم کی شرح زیا دہ ہے وہاں پر فی کس آمدنی اور عام لوگوں کا معیار زندگی کم پڑھے لکھے ممالک کی نسبت زیا دہ ہے۔اگر ہم موجودہ دور میں جاپان، کو ریا ، امریکہ ، بر طانیہ ، چین اور دوسرے کئی ممالک کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو دیکھیں تو انکی کامیابیوں اور کا مرانیوں میں تعلیم کو خاص اہمیت حا صل ہے۔ مثلاً آسٹریا میں شرح خواندگی 99 فی صد ہے ، جسکی وجہ سے وہاں پر فی کس آمدنی 40 ہزار ڈالر اور متوقع زندگی 82 سال ہے۔ اس طرح کینیڈا کی شرح خواندگی 99 فی صد جبکہ اچھی تعلیم اور علم کی وجہ سے کینیڈا کی فی کس آمدنی41ہزار اور متوقع زندگی 83 سال ہے ۔فرانس کی شرح خواندگی 99 فی صد جبکہ فی کس آمدنی 36 ہزار ڈالرز اور متوقع زندگی 84 سال ہے۔ جبکہ اسکے بر عکس وہ ممالک جہاں ہر شرح خواندگی اور تعلیم کم ہے وہاں پر فی کس آمدنی اور متوقع زندگی بُہت کم ہے۔ مثلاًچا ڈ کی خواندگی 35 فی صد ہے جسکی وجہ سے وہاں پر فی کس آمدنی 1500 ڈالر ہے ۔ اس طر ح ایتھو پیا کی شرح خواندگی 36فی صد ہے جسکے نتیجے میںوہاں پر فی کس آمدنی 800 ڈالر اور متوقع زندگی 50 سال ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں یہو دیوں کی آبادی 17 ملین ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا 0.2فی صد ہے۔


یہودی زندگی کے ہر شعبے میں آگے کی طرف رواں دواں ہیں ،جبکہ دوسری طرف مسلمان جو کہ تقریباً دو ارب یعنی 200 کروڑ کے قریب ہیں ذلت ، رسوائی اور پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہودی اور دوسرے ترقی یا فتہ لوگوں کی ترقی کا راز جدید دور کے علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیم میں ہے۔اس وقت اسرائیل کی شرح خواندگی 98فی صد ، جبکہ اوسط متوقع زندگی 84 سال اور فی کس آمدنی 38ہزار ڈالر ہے۔ امریکہ نے پو ری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنی تعلیمی اور سائنسی بر تری پر یر غمال بنایا ہوا ہے۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اسلئے روا رکھے ہوئے ہے کہ انکی تعلیم اور سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی اعلیٰ درجے کی ہے کہ پو ری دنیا اور بالخصوص مسلمان مما لک انکا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس کمزوری کو سامنے رکھ کر دنیا کے دو ارب مسلمانوں پر وہ اپنی مرضی ٹھونستے ہیں۔ مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہنا، مسلمان مائوںبہنوں بیٹیوں اور بچوں کا ائیر پو رٹ پر سکریننگ ٹسٹ کرنا، عافیہ صدیقی اور اس طر ح بُہت ہی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کا امریکی اور دوسرے یو رپی ممالک کے قبضے میں ہو نا، بیت المقدس کی بے حُرمتی کر نا، حضور ۖ اور دوسرے پیغمبران کرام کی شان میں گستا خی کرنا، مسلمانوں کے وسائل پر زبر دستی قبضہ کر نا دور جدید کی ایسی مثالیں اورمسائل ہیں جن سب کا تعلق تعلیم اور جدید دور کی سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہے ۔



اگر مسلمان جدید دور کی تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوتے تو وہ کبھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے ہا تھوں کھلونا نہ بنتے۔آج کل کی دنیا میں ترقی پزیر ممالک کی کامیابیوں کا دار و مدار تعلیم اور جدید دور کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہے۔ کسی بچے نے جب میڈیکل کالج یا انجینئر نگ یو نیور سٹی میں داخلہ لینا ہو تو انکے لئے پہلے ایف ایس سی میں 80 فی صد نمبر کے ساتھ ساتھ انٹری ٹسٹ کا پا س کر نا ضروری شرائط میں سے ہے۔ اگر ایک انجینئر اور ڈاکٹر بننے کے لئے اتنی کڑی اور سخت شرط رکھی جاسکتی ہے تو وہ لوگ جو قومی ، صوبائی اسمبلیوںیا سینیٹ میں بیٹھے ہو نگے وہ ملک کے انتہائی حساس قومی معامالات کے لئے کس طر ح قانون سازی کر سکیں گے۔اگر ہم قُرآن مجید اور احا دیث کا مطالعہ کریں تو قُر آن مجید فُر قان حمید میں ایسی ہزاروں آیتیںاور احا دیث ہیں جس سے علم اور تعلیم کی اہمیت اُجا گر کی گئی ہے۔ جو آدمی زیادہ تعلیم یا فتہ نہ ہوں وہ کس طرح قانون ساز اداروں میں ملک کے حساس معاملات کی طر ف توجہ اور ان مو ضو عات پر بحث کر سکتا ہے۔ ہم بھارت اور دوسرے پڑوسی ممالک کے ساتھ زندگی کی ہر مد میں ہم سری اور برابری تو کر تے ہیںمگر یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلیمی میدان میں ہم سری اور برابری کیوں نہیں کر تے ۔ بھارت کے لوک سبھا کے امیدواروں کی تعداد 543 ہے۔ جن میں 30 پی ایچ ڈی، 143ایم فِل ، ایم ایس سی، ایم اے اور 260 گریجویٹس اور 20 سینئر کیمبرج ہیں۔جبکہ سری لنکا کے پارلیمنٹیرین کی تعداد 200 ہے جس میں اکثریت پی ایچ ڈی، ایم فل، ایم ایس سی اور ایم اے ہیں۔ اسی طرح صورت حال یاران میں بھی ہے ۔ کوئی بھی ملک اُ س وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اُ س ملک کے شہری اور خا ص طور پر اُسکے قانون ساز تعلیم یافتہ نہ ہوں۔ آج کل کی اقتصا دیات کی بنیا د ایجوکیشن بیس ہے جن ممالک میں تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی کی کمی ہے ، قوموں کی برا دری میں انکی کوئی حیثیت نہیں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں