میں نے “تنخواہ “نام کے اس معاوضے کو 1500 روپے کے حساب سے لینا شروع کیا ۔کلرک نے پہلی بار لاکر تھما دیا ۔اس سمے مجھے گویا دنیا جہان کی دولت مل گئی ۔لا کر ماں کی مٹھی میں رکھ دی ۔ماں نے میری غیر موجودگی میں ابو کے سامنے رکھ دی ۔باپ نے شکر کرنے کے بعد ماں کو واپس کر دی ۔۔کہا بچہ ہے اس سے کہوخود خرچ کرے ۔۔میری پنشن ہم دونوں کے لیے کافی ہے ۔خرچ کیا کرنا تھا بس گھر کے لیے سامان کی خریداری کی ۔۔پھر دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کا شدت سے انتظار ہونے لگا ۔دن کاٹتا رہا ۔ہر نکلتا سورج ایک امید لے کے آتا اور ڈوبتا سورج امید کو اور قریب کر دیتا ۔دوسرے مہینے کی تنخواہ 2500 ہو گئی ۔یک دم جھٹکا سا لگا ۔۔۔اتنی” زیادتی”۔۔۔یہ واقعی میں “زیادتی ” ہی تھی کہ اس زیادتی کے ہاتھوں ساری عمر گنوا دی ۔کلرک سے وجہ پوچھی تو اس نے بڑی رعونت سے کہا pay revised ہو گئی ۔ہمیں ان قوانین کا کیا پتہ تھا ۔کلرک کے تجربے اور قابلیت کے سامنے دب سے گئے ۔اور پھر ساری زندگی اس کے تجربے کے سحرسے نہیں نکلے ۔پھر یوں ہوا کہ اس تنخواہ نے زندگی سے بہت ساری رونقیں واقعات حادثات تلخیاں اور شیرینیاں چھین لیں وقت کی رفتار چھین لی۔گھٹتی عمر کا خوف چھین لیا ۔گزرتی جوانی کی سرگرمیاں چھین لیں ۔
اور پھر میں اکیلا ہوگیا ۔۔سارے خاندان کو میری تنخواہ سے دلچسپی ہو گئی ۔۔۔پوچھنے والا پوچھتا ۔۔کیا تنخواہ نہیں ملی ۔۔۔۔دوسرے نے پوچھا ۔۔۔تنخواہ کتنی ہے ۔۔۔ایک نے کہا۔اتنی تنخواہ لیتے ہو کہاں جاتی ہے۔۔۔ایک درد دل رکھنے والے نے نصیحت کی ۔۔۔۔تنخواہ میں سے کچھ بچا کے رکھو ۔۔۔اسی تنخواہ نے سال کے سارے موسم بھلا دیئے ۔خزاں کب اندازہ نہیں ۔۔بہار کب احساس تک نہیں ۔۔۔۔بس تنخواہ کب ۔۔۔اس سحر نے یہ احساس تک بھلا دیا کہ کمر کب جھکی داڑھی میں کب سفیدی ۔۔۔۔میںآ گے جا کرگریڈ سکیل وغیرہ سے واقف سا ہوگیا ۔اور ساری عمر ساتھیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ سالانہ ترقی اور تنخواہوں میں اضافے کو increament کہتے ہیں لیکن ساتھی agreament کہتے رہے.اسپیلنگ کا خدا حافظ اگر لفظ درست بولتے ۔۔محفلوں میں ادارے میں ٹیبل پربس یہی باتیں سننے کو ملتیں ۔۔کہ تنخواہ کی بڑھوتری ۔۔۔ زیادتی ۔۔۔اضافہ ۔۔۔یہ تنخواہ نام کی چیز نے بیڑا عرق کر دیا ۔اس کی بڑھوتری کے ساتھ لوگوں کی توقعات بھی بڑھتی رہیں اور شرح مہنگا بھی ۔۔۔اس دوران حکومتیں خواہ جمہوری ہوں غیر جمہوری ہوں خواہ پسندیدہ ہوں نا پسندیدہ ہو ں خواہ مخالف ہوں موافق ہوں ۔۔۔
ان کے دور میں ملک میں حالات کتنے بھی تشویش ناک ہوں ملازمین کی تنخواہیں اپنی جگہ رہیں سا لانہ اضافہ خواہ5 فیصد ہو یا 50 فیصد ہوتا رہا ۔ملازمینکے سال بھر کا انتظار کبھی مایوسی میں انجام پذیر نہیں ہوا۔ہر تین سال بعد pay revised ہوتے ۔لیکن ملازمین کبھی مایوس اور پریشان نہیں ہوئے ۔کبھی یہ خبریں نہیں ہیں کہ محکمے پرایویٹائز ہو رہے ہیں یہ خبرکبھی نہیں کہ ملازمین کی پنشن ختم کی جا رہی ہے ۔تنخواہ میں نصف کٹوتی ہو رہی ہے ۔۔۔ آئی ایم ایف نے شرط لگا رکھی ہے کہ ملازمین کو فارغ کرو ۔۔۔۔اور اس طرح مسلسل ملازمین کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کسی نے نہیں کیا ۔ملک میں زلزلے آئے ۔۔سیلاب آئے ۔۔خشک سالی ۔۔سالانہ بجٹ میں مالی خسارہ ہوا ۔۔قرض لینا پڑا ۔مگر ملازمین مطمئن ہی رہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت یہ ملازمین چلا رہے ہو تے ہیں ۔اور کبھی قربانی دینی ہوتی ہے تو یہ صف اول پہ ہوتے ہیں۔۔۔۔خواہ وہبیوروکریٹ ہوں یا معمولی چپڑاسی ۔۔۔حکومتیں ان سے چلتی ہیں ۔۔سیاست آنی جانی ہے ۔۔۔۔آسمانی بجلی ۔۔۔۔ابھی چمکی پھر اس کے بعد کڑکتی بھی ہے ۔۔۔قرن نے کہا ۔۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب بجلی چمکی تو اس روشنی میںآ گے بڑھے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو حیران کھڑ ی رہے ۔۔۔مجھے یہ سیاست ایسی ہی لگتی ہے ۔کتنے آئے اس کرسی پربراجمان ہوئے اب ان کا نام و نشان کہیں نہیں ۔لیکن اپنے پیچھے کچھ یادیں چھوڑ جاتے ہیں میں اب بھی تنخواہ لیتا ہوں لیکن بے سکون ہوں کبھی یہ خوف کہ اس میں سے کٹوتی ہوگی کبھی یہ ڈر کہ مجھے فارغ کیا جائے گا ۔میری طرف سے آئی ایم ایف کو جاکر کون بتائے کہ میرے پاس ایک “رزاق ازلی ” ہے اس نے مجھے پیدا کیا مجھے رزق بھی وہی دے گا ۔میرے رزق کا دروازہ کبھی بند نہ کرے گا ۔تم اورتمہارے چیلے میرے بارے میں جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کریں۔
372