دنیا کے سبھی مہذب ممالک اور معاشروں میں تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق اور حکومت کا فرض سمجھا جاتاہے۔تعلیم کو ایک سروس کے طور پر تسلیم کیا جاتاہے اور پالیسی سازی کے دوران سب سے زیادہ اہمیت اور وقعت تعلیم کے شعبے کو ہی دی جاتی ہے لیکن ریاست پاکستان جسے پی ٹی آئی والے اب ریاست مدینہ سے تشبیہ دیتے ہیں کا حال یہ ہے کہ ناکام حکومتی پالیسی کی وجہ سے عام آدمی کا جینا پہلے ہی دو بھر ہوچکاہے لیکن اب شہریوں سے یہ حق بھی چھینا جارہا ہے کہ ان کے بچے لکھت پڑھت کے قابل ہو سکیںہم شوگر مافیا،پٹرول مافیا،آٹا مافیا کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن پرائیویٹ سکول مافیا کی بات نہیں کرتے، ہم تعلیم کو کاروبار بنانے والوں کی بات نہیں کرتے اگر شوگر پٹرول مافیا میں جہانگیر ترین،خسرو بختیار،شہریار بختیار،آصف زرداری اور شریف فیملی ملوث ہیں تو سکولز مافیا میں بھی تو فوزیہ قصوری اور خیبر پختونخوامیں اسد قیصر، مشتاق غنی اور دوسرے لوگوں کے نام آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب یہاں پرائیویٹ سکولز ریگو لیٹری اتھارٹی والدین کو کوئی ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہے تو حکومت خود سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور فیصلہ سکولز مالکان کے حق میں ہوجاتا ہے.
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سید ظفر علی شاہ پرائیویٹ سکولز ریگو لیٹری اتھارٹی کے سربراہ تھے تو وہ ہر فیصلہ کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے تھے۔اکثر ان کے فیصلے سکولز مالکان کو پسند نہیں بھی ہوتے تھے لیکن چونکہ فیصلے قانون،اخلاق اور قاعدے کے مطابق ہوتے تھے اس لئے وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد بھی کروانا جانتے تھے۔اسد قیصر جب صوبائی اسمبلی کے سپیکر تھے تو انہوں نے ظفر علی شاہ کو کمشنر لگانے کی لابنگ کی اور انہیںمختلف مراعات کا لالچ دے کر اس عہدے کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے. آخر میں انہیں مرضی کے خلاف ڈبلیو ایس ایس پی کا سربراہ بنا کر ایک ایسے شخص کو سکول کی ذمہ داری دی جس کے بعد کوئی بھی فیصلہ والدین اور بچوں کے حق میں نہیں آیا. سکول مالکان کا منافع کئی گنا بڑھ گیا جبکہ والدین رل گئے. ایک اور ظلم یہ بھی ہے کہ حکومت میں شامل پرائیویٹ سکولز مالکان سرکاری سکولوں کا معیار بہتر نہیں ہونے دیتے تاکہ لوگ بامر مجبوری پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر انحصار کریں۔جب سے کرونا کی وجہ سے لاک ڈائون ہوا ہے تو سکولز مالکان روزانہ کوئی نیا بہانہ بنا کر والدین کو لوٹنے کے لئے پیغامات بھیجتے ہیں. پہلے آن لائن کلاسز کا فلاپ ڈرامہ ہوا اور اب یوٹیوب لنکس بھیجنے کے بہانے پوری فیس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جہاں تک آن لائن کلاسز کا ڈھونگ رچانے کی بات ہے تو اساتذہ کاکام تو آسان ہوگیا لیکن والدین کو فل ٹائم مصروفیت مل گئی۔کلاس کے دوران والدین بھی مسلسل مصروف ہوتے ہیں۔گھر کے دو چار کمرے، لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر، انٹرنیٹ، گھر کی پرائیویسی سب کچھ سکولوں کے ساتھ شیئر ہوگئیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بچوں کی فیس کم از کم آدھی کر دی جاتی لیکن یہاں بھی معیار،اقدار،اخلاقیات اور انسانیت ہار گئی، سکول مافیا جیت گیا۔اب کہتے ہیں کہ ہم یوٹیوب لنکس بھیجیں گے، تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ اگر یوٹیوب سے ہی پڑھنا ہے تو وہاں ان کے مقابلے میں ہزار گنا بہتر مواد ویڈیوز کی شکل میں موجود ہے۔پھر اس کیلئے والدین سکولوں کو فیس کیوں ادا کریں۔اس لئے اب والدین نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ اب تک واجب الادا فیس ادا کرکے سکول چھوڑنے کی سرٹیفیکیٹس سمیت بچوں کو سکولوں سے اٹھالیں۔اور آئندہ سال اگر سکول دوبارہ کھلنے کے قابل ہوتے ہیں تو بچوں کو ازسر نو داخل کرادیں گے۔کیونکہ مفت میں سکولوں کے اکائونٹ والدین کیوں بھریں۔کاروباری خسارے، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ہر شخص کی آمدن پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے۔ان حالات میں سکولز مالکان بھی والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور حکومت خاموش ہے لیکن حکومت خاموش نہیں بلکہ لطف اندوز ہورہی ہے۔کیونکہ زیادہ تر سکولز مالکان براہ راست طور پر حکومت کا حصہ ہیں یا پھر ان کے رشتہ دار اس کاروبار سے منافع کمار ہے ہیں حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ فیس کم ہو یا معاف ہو کیونکہ ان کے لئے تو علم بڑی دولت ہے۔علم بیچیں گے تو اکائونٹس بھریں گے۔میں سوچ رہا ہوں کہ یہاں ریاست مدینہ کے دعویدار خاموش کیوں ہیں خیبر پختونخوا میں تو مدینہ کی ریاست کا تصور سات سال سے ہوا میں گردش کررہاہے یہاں تو صورتحال بہت بہتر ہونی چاہیے تھی لیکن یہاں تو حالت سب سے خراب ہے ان سب خراب حالات میں ایک بات باعث اطمینان ہے جس کی وجہ سے غربا ء کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔بے روزگاری،جہالت اور مہنگائی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اب لوگوں کو بجلی، گیس، پیٹرول، چینی اور آٹا بحران جیسے بحرانوں سے ڈر نہیں لگتا اور وہ بات یہ ہے کہ ہمارا وزیراعظم ہینڈ سم ہے۔
379