صحافتی کیرئیر میں پریس کانفرنسیں جلسے جلوسوںکی کوریج تو معمول کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو عام واقعات سے ہٹ کر ہوتے ہیں مجھے یہ واقعہ بخوبی یاد ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس کا ایک بڑا فنکشن تھا جسمیں صوبہ سرحد کے گورنر ارباب سکندر خان خلیل مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے ان کے ساتھ ان کے سینئرمشیر ارباب جہانگیر خان بھی موجود تھے میرے علاوہ چند دوسر ے صحافی حضرات بھی فنکشن کی کوریج کے لئے موجود تھے فنکشن میں تقاریر سنیں Notesلئے تاکہ آفس جاکر خبر بنائی جاسکی جیسے ہی فنکشن ختم ہوا وہاںموجود صحافیوں کا گورنر صاحب سے آمنا سامنا ہوگیا ارباب سکندر خلیل صاحب بہت مشفق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے صحافیوں سے حال احوال پوچھنے کے بعد گورنر ہائوس چل کر چائے پینے کی دعوت دی جسے صحافیوں نے بصد شکریہ قبول کرلیا اور ان کے ساتھ گاڑی کی جانب بڑھے ارباب جہانگیر خان اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے گورنر صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔جبکہ وہاں موجود صحافی حضرات گورنر صاحب کے مشیر(سینئر) ارباب جہانگیر خان کی گاڑی میں جا بیٹھے اور دونوں گاڑیاں گورنر ہائوس کی طرف چل پڑیں البتہ جب مال روڈ پر پہنچے تو گورنر صاحب کی گاڑی یکایک رک گئی جس کے بعد ارباب جہانگیر صاحب کی گاڑی کا رکنا ضروری تھا جسمیں صحافی حضرات براجمان تھے گورنر صاحب ارباب سکندر خان خلیل اور ارباب جہانگیر گاڑی سے باہر نکل آئے اس دور میں لمبے چوڑے پر وٹوکول وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے ہم لوگ بھی گاڑی سے باہر نکل آئے یہاں سے گورنر ہائوس ڈیڑھ دومیل کے فاصلے پر ہوگا گورنر صاحب اور ان کے مشیرکی گاڑی آگے کی طرف چلی گئی اور گورنر صاحب نے کہا کہ گورنر ہائوس تک گپ شپ لگاتے ہوئے پیدل چلنا ہے غرضیکہ چہل قدمی بھی ہوگئی اورگپ شپ میں بہت سے مسئلے مسائل گفتگو کا حصہ بنے یہ ایک نیا صحافتی تجربہ تھا جو آج کے دور میں تو ممکن نہیں ہے گورنر ہائوس پہنچ کر چائے پلائی گئی پھر اجازت لیکر گورنر ہائوس سے اپنے اپنے دفاتر کا رخ کیا۔ستر کی دہائی کے اوائل میں جب میںنے پشاور میں رہتے ہوئے صحافتی میدان میں قدم رکھا تو جو صحافی حضرات عملی صحافت میں بہت زیادہ چھائے ہوئے نظر آئے ان میں کئی نام ذہن میں ابھی تک محفوظ ہیں جنگ کے ایس ایم رضوی نوائے وقت کے اقبال ریاض دو بھائیوں کی جوڑی باری ملک اور حفیظ الفت پاکستان ٹائمزکے مرتضیٰ ملک اے پی پی کے مرزا اشرف جسارت کے جناب طالب جنکے صاحبزادے صلاح الدین بھی صحافی بنے میرے کالج فیلو سید شکیل احمدمشرق اخبار کے عبدالواحد یوسفی سینئر صحافی شریف فاروق اقبال کاشمیری شاہین صہبائی انجام اخبار کے ایڈیٹر مسعودانوشفقی جو ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ بہر حال یہ تمام صحافی حضرات صاف ستھری صحافت کے امین تھے یہ وہ دور تھا جب آج کی طرح ہر چیز میں گھپلے ، کرپشن اور دیگر برائیاں عام نہیں تھیں۔
میں نے اسوقت نیشنل عوامی پارٹی کے قائد خان عبدالولی خان کا ہفت روزہ پیمان کیلئے ایک خصوصی انٹرویو کیا جسمیں انہوں نے تمام ایشوزپر کھل کر اظہار خیال کیا روزنامہ شہباز نیشنل عوامی پارٹی کا ترجمان اخبار تھا جس نے خان عبدالولی خان کے انٹرویو کو چھ یا آٹھ کالمی ہیڈ لائن کے ساتھ بہت نمایاں انداز میں شائع کیا اس روز روز نامہ شہباز اخبار کی فروخت ہونے کی تعدادمیں خاصا اضافہ ریکارڈ کیا گیا کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی کے کارکن اپنے قائد کے خیالات سے پوری طرح آگہی چاہتے تھے جب ہفت روزہ پیمان نے صوبہ سرحد کے گورنر ارباب سکندر خان خلیل کا EXCLUSIVEانٹرویو شائع کیا تو روز نامہ شہبازنے اس انٹرویو کو بھی نمایاں طور پر شہباز میں جگہ دی۔
اپنے صحافتی کیریئر میں یہ بات بھی ایک ہی بار دیکھنے کو ملی کہ مولانا مفتی محمود کی وزارت اعلیٰ کا دور تھا ہر جمعہ کے دن اسوقت کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کسی نہ کسی مسجد میں بیان فرمایا کرتے تھے مسجد کے نام کا اعلان اخبارات کے ذریعے کردیا جاتا تھا صحافی حضرات اپنے فرائض منصبی کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسجد میں ضرور موجود ہوتے تھے جہاں مولانا مفتی محمود بیان فرماتے تھے صحافی حضرات بیان کو غور سے سنتے تھے اور بیان میں سے خبر نکالنے کے حوالے سے پوائنٹس نوٹ کرلیا کرتے تھے اور اگلے روز وزیر اعلیٰ کی خبر تمام اخبارات میں شائع ہوجایا کرتی تھی بعد میں کسی حکومت میں وزیر اعلیٰ کا مسجد میں بیان کرنے والا سلسلہ دیکھنے میں نہیں آیا اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ ہائوس میں جب بھی جانا ہوتا تھا وہاںلان میں جماعت کا اہتمام ہوا کرتا تھا اور وہاں مولانا مفتی محمود صاحب کی امامت میں نمازپڑھنے کا موقع مل جایا کرتا تھا ایک خاص بات وزیر اعلیٰ ہائوس کے حوالے سے اچھی طرح یاد ہے کہ وزیراعلیٰ ہائوس میں صحافیوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ جب آنا چاہیں آسکتے ہیں۔
ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں یعنی 1967میں پاکستان پیپلزپارٹی کا وجود عمل میں آیاذوالفقار علی بھٹو شہید پارٹی کے چیئرمین تھے ان کے ساتھ چند دوسرے ساتھیوں کے صوبہ سرحد کے نوجوان لیڈر حیات محمد خان شیر پائو بھی تھے جو سرحد کی سیاست میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے ذوالفقار بھٹو شہید کے بااعتماد ساتھیوں میں سے تھے وہ پارٹی کے وائس چیئرمین بنائے گئے جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو حیات محمد خان شیر پائو کو صوبہ سرحد کا پندرہواں گورنر بنایا گیا ان کے ہمراہ ایک بارسوات کا تفصیلی دورہ کرنے کا اتفاق ہوا چھوٹے چھوٹے گائوں اور شہروں میں حیات محمد شیر پائو نے پر جوش انداز میں تقاریر کیں وہ صوبہ سرحد میں بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اسوقت جہاں ان کے چاہنے والوں کا ایک بہت بڑا حلقہ تھا وہاں ان کی شہرت سے کچھ لوگ بہت خائف تھے جس کی وجہ سے انہیں راستے سے ہٹانے کی غرض سے ٨ فروری ١٩٧٥ء کو جب وہ پشاور یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں شریک تھے تو انہیں بم کے دھماکے میں شہید کردیا گیا صوبہ سرحد میں یکا یک حالات بگڑ گئے
اسوقت خان عبدالولی خان کے بھائی خان عبدالعلی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے حیات محمد شیر پائو جنہیں شیر سرحد بھی کہا جاتا تھا کے قتل کا الزام نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان پر لگایا گیا اور اسی شام انہیں لاہورسے گرفتار کر لیا گیا جب وہ شیر پائو کے جنازے میں شرکت کے لئے روانہ ہورہے تھے ان کے ساتھ ٨٠دوسرے رہنمائوں کو گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا مجھے ان کے ساتھ سوات کا ایک تفصیلی دورہ کرنے کا اتفاق ہوا لیکن بیچ میں شملہ معاہدہ کی کہانی سامنے آگئی اور حیات شیر پائو کو دورہ مختصر کرکے اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی گئی اسطرح یہ دورہ مکمل نہ ہوسکا۔